میرے گھر والوں نے اس بات کی شدید مُخالفت کی اور والدین نے تو سختی سے منع کردیا۔ رشتہ داروں اور کچھ قریبی دوستوں کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے تو یہ تک کہہ دیا کہ والدین کی اجازت کے بغیرتم ایسانہیں کرسکتے کیونکہ اس طرح تو تم ان کی ناراضگی مول لو گے اور پھر ثواب کے بجائے اُلٹا گناہگار ہو جاؤ گے، میرے دل نے ان کی یہ بات قبول کرنے سے انکار کردیا، میں نے اس مسئلے کی جانچ کے لئے اپنے کالج کی لائبریری میں موجود مختلف اسلامی کتب کامطالعہ کیا مگر مجھے یہ مسئلہ نہ ملا۔ چونکہ مجھے شَرَعی احکامات کی زیادہ معلومات تو تھی نہیں لہٰذا اس طرح کی باتیں سُن کر دل مَسُوس کر رہ گیاسے۔ ایک دن محلے کی مسجد غوثیہ رضویہ میں نماز پڑھ کر جب مسجد سے نکلنے لگا تو اچانک باآوازِبلند ایک مبلغ دعوتِ اسلامی کے دُرود و سلام پڑھنے کی صدائیں میری سماعَتوں سے ٹکرائیں ان کی آواز کا سُننا تھا کہ گھر کی جانب اُٹھتے ہوئے قدم خود بخود رُک گئے اور جب انہوں نے نمازیوں سے قریب قریب آنے کو کہا تو بے ساختہ میرے قدم اُن کی طرف بڑھ گئے اور میں بھی درس میں شریک ہوگیا۔ درس کے اختتام پر مُلاقات کے دوران اُس مُبَلّغ اسلامی بھائی نے مجھے ایک رسالہ بنام ’’سمندری گنبد‘‘ تحفے میں پیش کیا۔ گھر جا کر جب میں نے اس رسالے کا مطالعہ کیا تو میری پلکوں کے ساحل پر اشکوں کا ہُجوم لگ گیا کیونکہ امیرِاہلسنّت، بانیٔ دعوتِ