دعوتِ اسلامی والوں نے میرے بھائی کو حسن اخلاق اور عفو و درگزر کا ایسا پیکر بنا دیا تھا کہ وہ نیکی کی دعوت کے جذبے سے سرشار ،صبر و اِستِقلال کا گویا پہاڑ بن کر مسلسل پانچ سال تک میری حوصلہ شکن باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے گاہے گاہے مجھے نیکی کی راہ پر گامزن کرنے کی کوششیں کرتا رہا شاید یہی وجہ تھی کہ اس کی اصلاح سے بھرپور باتوں کے لئے رفتہ رفتہ میرے دل میں نرم گوشہ پیدا ہوتا چلا گیا۔ پہلے تو گناہوں پر ندامت کا احساس تک نہ ہوتا تھا مگر اب جب بھی بتقاضائے بشریت مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہوتا تو میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگتا اور مجھے اپنے آپ سے شرمندگی ہونے لگتی، کبھی کبھار تو یہ تمنا بھی دل میں جاگ اُٹھتی کہ کاش ! مجھے کوئی ایسا دامن نصیب ہوجائے جسے تھام کر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گناہوں کے دلدل سے نجات حاصل کرلوں۔ آخرکارمجھ گناہگار پر میرے ربّ عَزَّوَجَلَّ کا بڑا کرم ہوا کہ اس نے مجھے اپنے ولی کامل شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علاّمہ مولاناابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری رَضَوی دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالِیہ کا دامن عطا فرما کر اسے میری اصلاح کا ذریعہ بنادیا ۔ ہوا کچھ یوں کہ یکم رمَضانُ الْمبارک ۱۴۲۹ھ بمطابق 2 ستمبر 2008ء کو دیگر مسلمانوں کی طرح میں بھی روزہ رکھنے کے لئے صبح سویرے جاگ گیا، سحری کے بعد نمازِ فجر کی ادائیگی کے لئے میں اپنے محلے کی بلال مسجد