Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۲۷(کتاب الشتّٰی )
5 - 212
مسئلہ ۱۲ : از سیتا پور محلہ تامسن گنج کوٹھی حضرت سید محمد صادق صاحب وکیل علیہ الرحمۃ

مرسلہ حضرت مولینٰا مولوی سید محمد میاں صاحب دامت برکاتہم ۱۷ رمضان المبارک ۱۳۳۷ھ 

حضرت مولانا المعظم والمکرم دامت برکاتہ العالیہ پس از آداب و تسلیمات معروض ، حدیث اوّل الرسل الخ ۔ کس کتاب  احادیث میں مروی ہے؟ اور حکیم ترمذی نے اُسے اپنی کس کتاب میں روایت کیا ہے؟
الجواب : حضرت بابرکت دامت برکاتہم السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ، یہ حدیث سیدنا ابوذر علیہ الرضوان سے مسنِد احمد میں یوں ہے۔
قلت یارسول اللہ ای الانبیاء کان اوّل قال اٰدم ، قلت یارسول اللہ و نبی کان ، قال نعم نبی مکلم''۱ ؎
میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کون سا نبی سب سے اوّل ہوا؟ آپ نے فرمایا آدم میں نے کہا وہ نبی تھے؟ آپ نے فرمایا وہ نبی تھے جن سے کلام کیا گیا ہے۔(ت)
 ( ۱ ؎  مسند احمد بن حنبل    عن ابی ذر رضی اللہ عنہ     المکتب الاسلامی بیروت ۵/ ۱۷۸ )
اور نوادر الاصول تصنیف امام حکیم الامۃ ترمذی کبیر میں ان سے مرفوعاً یوں ہے:
اول الرسلٰ اٰدم واخرھم محمد علیہ وعلیھم افضل الصلّوۃ والسلام۔ ۲ ؎
رسولوں میں اوّل آدم اور ان میں آخر محمد ہیں، آپ پر اور سب رسولوں پر بہترین درود و سلام ہو۔(ت)
 ( ۲ ؎  الجامع الصغیر بحوالہ الحکیم عن ابی ذر رضی اللہ عنہ حدیث ۲۸۴۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت   ۱/ ۱۶۹)
والا نامہ کل یکشنبہ کو بعد روانگی ڈاک ملاورنہ کل ہی جواب حاضر کرتا والتسلیم۔
مسئلہ۱۳ : از شہر بریلی مدرسہ منظر الاسلام مسئولہ مولوی محمد افضل صاحب کابلی ۲۸ شوال ۱۳۳۷ھ
'' قول حماد رضی اللہ تعالٰی عنہ ترکت الحدیث( عہ) الخ مرابفہمایند''
حضرت حماد رحمۃ اللہ علیہ کے قول '' میں نے حدیث کو چھوڑ دیا'' کا مطلب مجھے سمجھادیں۔(ت)
عہ: تمام عبارت مذکورہ سوال ایں است سمعت عبدالحکم بن میسرۃ یقول اتیت حماد بن ابی حنیفہ وقد کان امسک عن الحدیث فسألتہ ان یحدثنی وذکرت لہ مجتبی ایاہ فقال ترکت الحدیث فانی رایت ابی فی المنام کانّی اقول لہ ما فعل بک ربک فیقول ھیہات ھیہات علیک بالرای ثلاث مرات ودع الحدیث ودع الحدیث ثلاث مرات۱؂ اھ
سوال میں مذکور مکمل عبارت یہ ہے ، میں نے عبدالحکم بن میسرہ کو کہتے ہوئے سنا ۔کہ میں حضرت حماد بن امام ابوحنیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ آپ نے حدیث بیان کرنا بند کردیا تھا میں نے ان سے کہا کہ مجھے حدیث بیان فرمائیں تو انہوں نے کہا کہ میں نے حدیث کو ترک کردیا ہے کیونکہ میں نے خواب میں اپنے والد گرامی کو دیکھا گویا کہ میں ان سے کہہ رہا ہوں ۔ کہ آپ کے پروردگار نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے تووہ مجھے فرماتے ہیں کہ تجھ پر افسوس ہے۔ قیاس پر عمل کرو۔ یہ تین با ر فرمایا اور حدیث کو چھوڑ دو، یہ تین مرتبہ فرمایا۔  اھ( ت)
الجواب : '' درمناقب خوارزمی و درمناقب کردری ہر دو از حاکم صاحب مستدرک آوردہ اندکہ مرادش احادیث موضوعہ و مخالف کتاب ست اقول این بقول اوعلیک بالرای وقول حماد وترکت الحدیث نمی چسپد وانچہ نجاطرم ریختند کہ لام درحدیث برائے عہد ست حدیثے بودہ باشد کہ حماد روایتش میکرد وبواقع صحیح نبود امام حماد باعتمادش در مسئلہ قیاس صحیح میکرد تقدیما للحدیث علی الرای حضرت امام او را تنبیہ نمود کہ ایں حدیث صحیح نیست واعتماد رانشاید دریں مسئلہ ہم بررائے عمل کن عبدالحکم را ازحماد ایں حدیث بواسطہ رسیدہ بود خواست حاضر و از حماد شنودپس او را سوال کرد حماد فرمود من آں حدیث راترک کردہ ام وآں خواب بیان کرد ۔، و ترک حدیث نہ بربنائے مجرد خواب باشد بلکہ بہ تنبیہہ امام متوجہ شدہ وعلت قادحہ درآں برو ظاہر گشتہ باشد واللہ تعالٰی اعلم ''
مناقبِ خوارزمی اور مناقب کردری دونوں میں بحوالہ امام حاکم صاحبِ مستدرک وارد ہے کہ اس سے مراد موضوع حدیثیں ہیں جو کتاب اللہ کے مخالف ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ معنی امام صاحب کے قول کہ '' تجھ پر لازم ہے کہ قیاس پر عمل کر'' اور حضرت حماد کے قول کے '' میں نے حدیث کو چھوڑ دیا ہے '' پر منطبق نہیں ہوتا۔ اور میرے دل میں القا ہوا ہے کہ حدیث پر الف لام عہدی ہے۔ اس سے مراد کوئی خاص حدیث ہے جس کو حضرت حماد علیہ الرحمۃ روایت کرتے تھے اور واقع میں وہ حدیث صحیح نہ تھی جب کہ آپ اس پر اعتماد کرتے ہوئے اور حدیث کو قیاس پر مقدم جانتے ہوئے کسی خاص مسئلہ میں قیاس صحیح کے خلاف عمل کرتے تھے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس پر تنبیہ فرمائی کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اور اعتماد کے لائق نہیں ہے لہذا اس مسئلہ میں بھی قیاس پر عمل کرو۔ عبدالحکم کو حضرت حماد کی، یہ حدیث کسی اور کے واسطے سے پہنچی تھی۔ آپ نے خود حاضر ہو کر حضرت حماد سے یہ حدیث سننے کی خواہش کی۔ چنانچہ ان سے حدیث سنانے کا مطالبہ کیا جس پر حضرت حماد نے فرمایا کہ میں نے اس کو چھوڑ دیا ہے اور خواب مذکور کو بیان کیا۔ اس حدیث کو چھوڑنا' محض خواب کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ حضرت حماد علیہ الرحمۃ خواب میں امام صاحب کی تنبیہ فرمانے پر متوجہ ہوئے تو اس حدیث میں علت  قادحہ آپ پر ظاہر ہوگئی ہوگی۔ اور اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے۔(ت)
مسئلہ ۱۴ : از شہر بریلی مدرسہ منطر الاسلام مسئولہ مولوی محمد افضل صاحب کابلی ۲۸ شوال ۱۳۳۷ھ)
'' قام علیا رضی اﷲ تعالٰی عنہ وامکن لہ وھاب منہ وبجلہ (عہ)  چہ معنی دارد ؟ ''
حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر امام ابوحنیفہ کو جگہ دی ان کو محتشم جانا اور ان کی تعظیم کی، اس کا کیا معنی ہے؟(ت)
عہ:  تمام عبارت ایں ست قال صالح بن الخلیل رأیت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وعلیا معہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فجاء ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فقام علیا رضی اللہ تعالٰی عنہ وامکن لہ وھاب منہ و بجلہ ۱؂
پوری عبارت یوں ہے ، صالح بن خلیل نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ وہاں آئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جگہ دی، اور انکومحتشم ٹھہرایا اور ان کی تعظیم کی۔(ت)
الجواب : بسیارے از خواب ماول باشد نہ کہ برہر ظاہرمحمول و تعظیم اکابر خور دان خود رابرائے اظہار عظمت ایشاں دور نیست سید عالم علیہ وسلم برائے حضرت بتول زہرا قیام فرمودے و دست اورا بوسہ دادہ برجائے خود نشاندے وہیبت اینجا بمعنی احتشام ست یعنی اورا محتشم داشت وعامل معہ معاملۃ الھائب واللہ تعالٰی اعلم۔
بہت سے خواب ایسے ہوتے ہیں جو ظاہر کے خلاف ہوتے ہیں یعنی ظاہر پر محمول نہیں ہوتے اور بڑوں کا اپنے سے چھوٹوں کی تعظیم کرکے ان کی عظمت کا اظہار کرنا کوئی بعید نہیں۔ خود سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ بتول زہرہ رضی اللہ عنہا کے لیے کھڑے ہوتے، ان کا ہاتھ چومتے اور ان کو اپنی مسند پر بٹھاتے اور ہیبت یہاں ( سوال میں) بمعنی احتشام ہے یعنی اُسے محتشم قرار دیا اور اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا جیسا کسی ہیبت ناک شخص کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے۔(ت)
مسئلہ۱۵ : از شہر بریلی مدرسہ منظرالاسلام مسئولہ مولوی محمد افضل صاحب کابلی ۲۸ شوال ۱۳۳۷ھ
حدیث  (عہ)کہ در شان امام صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہ و اردست بسیار طرق و بسیار علماء الحفاظ اورا قبول کردہ انددرفقہ شافعی نیز مذکور ست شراح ہدایہ چرابوضع وے قول کردہ انددریں جامی باید کہ قول ازواضعین وی ثبوت رسانند واگر نہ قول ایشاں مقبول نیست ۔
وہ حدیث جو امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شان میں متعدد طرق سے وارد ہے۔ بہت علماء و حفاظ نے اس کو قبول کیا ہے اور وہ فقہ شافعی میں بھی مذکور ہے۔ تو پھر ہدایہ کے شارحین نے اس کے موضوع ہونے کا قول کیا ہے۔ اس جگہ ضروری ہے کہ اس کو موضوع قرار دینے والے ثبوت فراہم کریں ورنہ ان کا قول مقبول نہیں ہوگا۔(ت)
عہ:لفظ آن حدیث ایں است قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سیکون فی اُمتی رجل یقال لہ ابوحنیفۃ النعمان وھو سراج امتی الی یوم القیامۃ ۱؂
اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب میری اُمت سے ایک مرد کامل ہوگا جس کو ابوحنیفہ کہا جائے گا وہ قیامت تک میری امت کا چراغ ہوگا۔(ت)
 ( ۱ ؎  مناقب الامام الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ للکردری العاشر منہم عائشہ بنت عجر مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ۱/ ۲۱ )
الجواب : در سندش کذّابین وضّاعین یا فتہ اندارجع الی اللآلی المصنوعۃ للحافظ السیوطی وشیخ قاسم حنفی نیز پیروی ایشاں کرد، ردالمحتار بایددید ، واللہ تعالٰی اعلم۔
شارحین ہدایہ نے اس حدیث کی سند میں حدیثیں گھڑنے والے کذابوں کو پایا ہے۔ امام حافط جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ کی کتاب ''اللآلی المصنوعہ'' کی طرف رجوع کرو۔ اور شیخ قاسم حنفی نے بھی ان کی پیروی کی ہے۔ ردالمحتار کو دیکھنا چاہیے ۔ واللہ تعالٰی اعلم (ت)
Flag Counter