Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۲۷(کتاب الشتّٰی )
6 - 212
رسالہ

الفضل الموھبی فی معنی اذا صح الحدیث فہو مذہبی(١٣١٣ھ)

(فضل (الہٰی) کا عطیّہ (امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے اس قول کے) معنی میں کہ جب کوئی حدیث صحت کو پہنچے تو وہی میرا مذہب ہے)

ملقّب بلقب تاریخی

اعزّالنّکات بجواب سوال ارکات(١٣١٣ھ)
مسئلہ۱۶ : از گڑامپور علاقہ نارتھ ارکاٹ مرسلہ کاکا محمد عمر ۱۳ رجب ۱۳۱۳ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس امر میں کہ کوئی حنفی المذہب حدیث صحیح غیر منسوخ وغیر متروک جس پر کوئی ایک امام آئمۃ اربعہ وغیرہم سے عمل کیا ہو۔ جیسے آمین بالجہر اور رفع یدین قبل الرکوع و بعدالرکوع اور وتر تین رکعتیں ساتھ ایک قعدہ اور ایک سلام کے ادا کرے تو مذہب حنفی سے خارج ہوجاتا ہے یا حنفی ہی رہتا ہے۔ اگر خارج ہوجاتا ہے کہیں تو ردالمحتار میں جو حنفیہ کی معتبر کتاب ہے اس میں امام ابن الشحنہ سے نقل کیا۔
اذا صح الحدیث وکان علٰی خلاف المذہب عمل بالحدیث ویکون ذٰلک مذہبہ و لایخرج مقلدہ عن کو نہ حنفیا بالعمل بہ فقد صح عنہ انہ قال اذا صح الحدیث فھو مذہبی، وحکی ذلک ابن عبدالبر عن ابی حنیفۃ وغیرہ من الائمۃ۱؎انتھی۔
جب صحت کو پہنچے حدیث اور وہ حدیث خلاف پر مذہب امام کے رہے عمل کرے وہ حنفی اس حدیث پر ، اور ہوجائے وہ عمل مذہب اس کا، اور نہیں خارج ہوتا ہے مقلد امام کا حنفی ہونے سے بسبب عمل کرنے اس حدیث پر، اس لیے کہ مکرر صحت کو پہنچی یہ بات امام ابوحنیفہ سے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب صحت کو پہنچے حدیث پس وہی مذہب میرا ہے۔ اور حکایت کیا اس کو ابن عبدالبر نے امام ابوحنیفہ اور دوسرے اماموں سے بھی۔ انتہٰی ۔
 ( ۱ ؎ ردالمحتار     مقدمۃ الکتاب     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۴۶ )
اور کتاب مقاماتِ مظہری میں حضرت مظہر جانجاناں حنفی کے سولہویں (۱۶) مکتوب میں ہے:
اگر بحدیث ثابت عمل نمایداز مذہب امام برنمی آید، چرا کہ قولِ امام اذا صح الحدیث فھو مذہبی نص است دریں باب واگر باوجود اطلاع برحدیث ثابت عمل نکند ایں قول امام را ترکوا قولی بخبرالرسول (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ) خلاف کردہ باشد ۔۲؂ انتہٰی
اگر کوئی شخص حدیث صحیح پر عمل کرے تو وہ امام اعظم ابوحنیفہ کے مذہب سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ قولِ امام  جب حدیث صحت کو پہنچے تو وہی میرا مذہب ہے اس باب میں نص ہے۔ اور اطلاع کے باوجود حدیث صحیح پر عمل نہ کرے تو امام اعظم علیہ الرحمہ کے اس قول کی خلاف ورزی کرنے والا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے سامنے میرے قول کو چھوڑ دو (انتہی ت)
 ( ۲ ؎  کلمات طیبات فصل دوم درمکاتیب حضرت مرزا صاحب مکتوب ۱۶    مطبع مجتبائی دہلی ص ۲۹)
اور بھی اسی مکتوب میں ہے:
  ہرکہ میگویدعمل بحدیث از مذہب امام برمی آرد اگر برہانے بریں دعوے دارد بیارو ۔۳؂
جو شخص یہ کہتا ہے کہ حدیث پر عمل کرنا مذہب امام سے خارج کردیتا ہے ، اگر اس کے پاس اس دعوٰی کی کوئی دلیل ہے تو پیش کرے (ت)
( ۳ ؎  کلمات طیبات    فصل دوم درمکاتیب حضرت مرزا صاحب مکتوب ۱۶   مطبع مجتبائی دہلی ص ۲۹)
اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حنفی نے اپنی کتاب عقد الجید میں فرمایا:
  لاسبب لمخالفۃ حدیث النبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) الانفاق خفی اوحمق جلی۔۱؂
پوشیدہ منافقت یا واضح حماقت کے بغیر حدیث رسول صلی اللہ وسلم کی مخالفت کا کوئی سبب نہیں(ت)
( ۱ ؎  عقد الجید (مترجم اردو) ابن حزم کے کلمات کا مصداق   محمد سعید اینڈ سنز قرآن محل کراچی ص ۶۳ )
ان سب بزرگوں کے اُن اقوال کا کیا جواب اگر مذہب امام سے نہیں خارج ہوتا ہے کہیں تو اس پر طعن و تشنیع کرنا گناہ اور بے جاہے یا نہیں؟ بیّنوا توجروا ( بیان فرمائیے اجر دیئے جاؤ گے ،ت)
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الحمد ﷲ الذی انزل الفرقان فیہ تبیان لکل شیئ تمییز االطیب من الخبیث وامرنبیہ ان یبینہ للناس بما اراہ اﷲ فقرن القرآن ببیان الحدیث والصلوۃ والسلام علٰی من بین القرآن واقام المظان واذن للمجتہدین باعمال الاذھان فاستخرجوا الاحکام بالطلب الحثیث فلو لا الائمۃ لم تفھم السنۃ ولولا السنۃ لم یفھم الکتاب ولو لا الکتاب لم یعلم الخطاب فیا لھا من سلسلۃ تھدی و تغیث وعلی اٰلہ وصحابتہ ومجتھدی ملتہ وسائرا متہ الٰی یوم التوریث ۔
سب تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جس نے حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب نازل فرمائی اس میں ہر چیز کا واضح بیان ہے ستھری کو گندے سے الگ کرنے کے لیے اور اس نی اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کے لیے بیان فرمایں جو کچھ اللہ تعالٰی نے آپ کو دکھایا چنانچہ اس نے قرآن کو بیانِ حدیث کے ساتھ مقترن فرمایا اور درود و سلام ہو اس پر جس نے قرآن کی وضاحت فرمائی اور اصول قائم فرمائے اور مجتہدین کو اذن بخشا کہ وہ ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر قیاس و اجتہاد کریں۔ چنانچہ انہوں نے بھرپور طلب کے ساتھ احکام مستنبط کیے۔ اگر ائمہ متجہدین نہ ہوتے تو سنت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نہ سمجھی جاتی۔ اور سنت نہ ہوتی تو اللہ تعالٰی کا خطاب نہ سمجھا جاتا۔ لہذا ایک راہنما اور معاون سلسلہ مہیا فرمادیا، نیز آپ کی آل، صحابہ، آپ کی اُمت کے مجتہدین اور قیامت تک آپ کی امت پر درود و سلام ہو۔(ت)
اقول: وباللہ التوفیق
( میں اللہ تعالٰی کی توفیق سے کہتا ہوں۔ت)
 صحتِ حدیث علی مصطلح الاثر وصحتِ حدیث العمل المجتہدین
میں عموم خصوص مطلقاً بلکہ من وجہ ہے ، کبھی حدیث سنداً ضعیف ہوتی ہے، اور ائمہ اُمت واُمنائے ملّت بنظر قرائنِ خارجہ یا مطابقت قواعدِ شرعیہ اس پر عمل فرماتے ہیں کہ اُن کا یہ عمل ہی موجبِ تقویت و صحتِ حدیث ہوجاتا ہے۔ یہاں صحت عمل پر متفرع ہوئی نہ عمل صحت پر۔ 

امام ترمذی نے حدیث :
من جمع بین الصلٰوتین من غیر عذر فقدا تی بابا من ابواب الکبائر ۔۱؂
جس شخص نے کسی عذر کے بغیر دو نمازوں کو جمع کیا تو بے شک وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں داخل ہوا۔(ت)
 ( ۱ ؎  جامع الترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی الجمع بین الصلوتین   امین کمپنی دہلی ۱/ ۲۶ )
روایت کرکے فرمایا۔
  حنش ھذا ھو ابوعلی الرحبی وھو حنش بن قیس وھو ضعیف عنداھل الحدیث ضعفہ احمد وغیرہ والعمل علٰی ھذا عنداھل العلم ۔۲؂
اس حدیث کا راوی ابو علی رحبی حنش بن قیس اہل حدیث کے نزدیک ضعیف ہے۔ امام احمد وغیرہ نے اس کی تضعیف فرمائی اور علماء کا عمل اسی پر ہے۔
 ( ۲ ؎  جامع الترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی الجمع بین الصلوتین   امین کمپنی دہلی ۱/ ۲۶ )
امام جلال الدین سیوطی کتاب التعقبات علی الموضوعات میں فرماتے ہیں:
اشاربذٰلک الی ان الحدیث اعتضد بقول اھل العلم وقد صرح غیرواحد بان من دلیل صحۃ الحدیث قول اھل العلم بہ وان لم یکن لہ اسناد یعتمد علٰی مثلہ ۔۳؂
یعنی امام ترمذی نے اس سے اشارہ فرمایا کہ حدیث کو قول علماء سے قوت مل گئی اور بے شک متعدد ائمہ نے تصریح فرمائی ہے کہ اہل علم کی موافقت بھی صحتِ حدیث کی دلیل ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کے لیے کوئی سند قابل اعتماد نہ ہو۔
( ۳ ؎ التعقبات علی الموضوعات   باب الصلوۃ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ص ۱۲)
امام شمس الدین سخاوی فتح المغیث میں شیخ ابوالقطان سے ناقل:
ھذا القسم لایحتج بہ کلہ بل یعمل بہ فی فضائل الاعمال ، ویتوقف عن العمل بہ فی الاحکام الا اذا کثرت طرقہ او عضدہ اتصال عمل اوموافقۃ شاھد صحیح اوظاھر القرآن ۔۱؂
حدیث ضعیف حجت نہیں ہوتی بلکہ ، فضائل اعمال میں اس پر عمل کریں گے اور احکام میں اس پر عمل سے باز رہیں گے۔ مگر جب کہ اس کی سندیں کثیر ہوں یا عمل علماء کے ملنے یا کسی شاہد صحیح یا ظاہر قرآن کی موافقت سے قوت پائے۔
 ( ۱ ؎ فتح المغیث القسم الثانی الحسن دارالامام الطبری ۱/ ۸۰ )
امام محقق علی الاطلاق فتح القدیر باب صفۃ الصلوۃ میں فرماتے ہیں:
 لیس معنی الضعیف الباطل فی نفس الامربل مالم یثبت بالشروط المعتبرۃ عنداھل الحدیث مع تجویز کونہ صحیحا فی نفس الامرفیجوز ان تقترن قرینۃ تحقق ذلک وان الراوی الضعیف اجاد فی ھذا المتن المعین فیحکم بہ ۔۲؂
ضعیف کے یہ معنٰی نہیں کہ واقع میں باطل ہے بلکہ یہ کہ اُن شرطوں پر ثابت نہ ہوئی جو محدثین کے نزدیک معتبر ہیں۔ واقع میں جائز ہے کہ صحیح ہو تو ہوسکتا ہے کہ کوئی قرینہ ایسا ملے جو اس جواز کی تحقیق کردے اور بتادے کہ ضعیف راوی نے یہ خاص حدیث ٹھیک روایت کی ہے تو اس کی صحت پر حکم کردیا جائے گا۔
 ( ۲؎ فتح القدیر  کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۲۶۶ )
Flag Counter