Brailvi Books

گلوکار کیسے سدھرا
2 - 31
ذمہ داری بدرجۂ اَتم پوری فرمائی۔ اس کے بعد مختلف بُزرگانِ دین اور علماء کرام نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور اپنے اپنے منصب کے مطابق حسبِ استطاعت اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْف وَ نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر کرتے رہے۔ آج ساری دنیا میں اسلا م کا لہلہاتا پرچم ان حضراتِ قدسیہ کی کوششوں کا مرہونِ منت ہے۔ ان بزرگانِ دین میں سے شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علاّمہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری رَضَوی دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالِیَہ کی ذاتِ بابرکات بھی ہے کہ جنہوں نے اپنی ساری زندگی نیکی کی دعوت کے لئے وقف کر دی۔ جہاں ان کی تصنیفات و تالیفات میں ہمیشہ اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْف وَ نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر کو کَلیدی (بنیادی) حیثیت حاصل رہی وہیں خیر خواہیٔ مسلمین کے جذبے میں ڈوبے ہوئے ان کے سنّتوں بھرے اصلاحی بیانات بھی اس کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے بیانات سن کر نہ صرف معاشرتی برائیوں میں مبتلا مسلمان گناہوں سے تائب ہوکردعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوئے اور سنّتوں کی چلتی پھرتی تصویر بن گئے بلکہ کفر ستان کے تپتے صحراؤں اور ریگستانوں میں بھٹکنے والے ان گنت غیر مسلم بھی اسلام قبول کر کے اس کے شجرِ سایہ دار تلے آگئے۔ آپ دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالِیَہ کے بیانات کے ذریعے رونما
ہونے والی مدنی بہاروں پر مشتمل احوال موصول ہوتے رہتے ہیں۔ دعوتِ اسلامی کی مجلس الْمدِیْنۃُ العِلْمِیّہ کا شعبۂ امیرِاہلسنّت ان کو تحریری صورت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی قسط ’’امیرِاہلسنّت کے بیانات