جانِ رحمتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے قرابت داری کی وجہ سے آپ اہْلِ بیْتِ اطہار کا بہت خَیال رکھا کرتے اورفرمایاکرتے تھے کہ ’’ حضورنَبیِّ کریم ، رءُ وْفٌ رَّحیمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے اَقارِب( رشتہ دار) مُجھے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ عَزِیزہیں ۔ ‘‘ (1)
فارُوقِ اعظم کی امامِ حُسین سے مَحَبَّت :
حضرت سیِّدُنایحییٰ بن سعیدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے مروی ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعُمَرفاروقِ اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے حضرت سیِّدُناامام حسینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے فرمایا : میرے پاس آتے رہاکریں ۔ ایک مرتبہ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے توحضرت سیِّدُناعبدُاللہبن عُمَر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے ملاقات ہوئی ، امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے ان سے پوچھا : کہاں سے آرہے ہیں؟کہا : والدصاحب کے پاس گیاتھالیکن حاضری کی اجازت نہیں ملی( لہٰذالوٹ آیا) ۔ یہ سن کرآپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبھی لوٹ آئے ۔ بعد میں امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے ملاقات ہوئی توانہوں نے فرمایا : اے حسین!ہمارے پاس کیوں نہیں آتے ؟آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کہا : میں حاضرہواتھالیکن آپ کے شہزادے عبدُاللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے بتایاکہ مجھے اپنے والدکی بارگاہ میں حاضری کی اجازت نہیں ملی ، لہٰذامیں بھی لوٹ آیا( کہ جب انہیں اجازت نہیں ملی تومجھے کیوں کرملے گی) ۔ یہ سن کرامیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعُمَرفاروقِ اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا : میرے نزدیک آپ کامرتبہعبدُاللہ سے کہیں زیادہ ہے ، میرے سرپریہ جوبال ہیں یہ آپ ہی نے تواُگائے ہیں ۔ (2)
________________________________
1 - بخاری ، کتاب المغازی ، باب حدیث بنی نضیر.....الخ ، ۳ / ۲۹ ، حدیث : ۴۰۳۶
2 - ابن عساکر ، الحسین بن علی الخ ، ۱۴ / ۱۷۵