عطّارقادری رضوی ضیائیدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہاپنے رسالے ’’ امام حُسَیْن کی کرامات ‘‘ میں یزید پلید کے اَنْجام کے بارے میں ایک اور واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : یزید پلید کی مَوت کا ایک سَبَب یہ بھی بتایا جاتاہے کہ وہ ایک رُومیُّ النَّسْل لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوگیا تھا ، مگر وہ لڑکی اندرونی طور پر اُس سے نفرت کرتی تھی ، ایک دن رنگ رلیاں مَنانے کے بہانے اُس نے یزیدکودُورویرانے میں تنہابُلایا ، وہاں کی ٹھنڈی ہواؤں نے یزیدکو بَدمَسْت کردِیا ، اُس دوشیزہ نے یہ کہتے ہوئے کہ ’’ جو بے غیرت و نابَکار ( یعنی نِکَمّا) اپنے نبی کے نواسے کا غَدّارہووہ میرا کب وفادارہو سکتا ہے ‘‘ خنجرِ آبدار( تیز دھار) کے پے در پے وار کرکے چِیْر پھاڑ کر اُس کو وہیں پھینک دِیا ۔ چند روز تک اُس کی لاش چِیْل کوّوں کی دعوت میں رہی ۔ بالآخر ڈُھونڈتے ہوئے اُس کے اَہالی مَوالی ( یعنی نوکر چاکر) وہاں پہنچے اور گڑھا کھود کر اُس کی سڑی ہوئی لاش کو وہیں داب( دَفنا) آئے ۔ (1)
اب ذرا اس کی قَبْر کا حال بھی سُنتے چلئے ۔ چُنانچہ
یزیدکی قَبْر کا حال :
دِمِشْق کے پُرانے قَبْرِستان بابُ الصَّغِیْر کے کچھ آگے یزید کی قَبْر کا نشان تھا ، جس پر آج سے کئی سالوں پہلے لوگ اینٹیں پتّھر مارتے تھے ، اکثروہاں اینٹوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا ، اب وہاں شیشہ( اور) لوہا گَلانے کی بھَٹّی لگی ہوئی ہے ، اُس کارخانے میں شیشے کے برتن بنائے جاتے ہیں ، لوہے اور کانچ کو گَلانے کی بھٹی بالکل ٹھیک جس جگہ قَبْرتھی وہاں بنی ہوئی ہے ۔ گویایزیدکی قَبْرپرہروقت آگ جلتی رہتی ہے ۔ (2)
________________________________
1 - امام حسین کی کرامات ، ص۴۷ ، اوراقِ غم ، ص۵۵۰
2 - شَہادت نواسَۂ سید الابرار ، ۹۱۸ ، ۹۱۹