ہاتھ ملانا میرے نزدیک کوئی معیوب نہ تھا، بے حیا اداکارائوں کے بے ہودہ عادت واطوار دیکھ کر مجھ پر فلموں ڈراموں میں کام کرنے کا بھوت سوار ہوگیا تھا۔ اسکول میں ہونے والے ورائٹی شومیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی، اپنی اداکاری کا مظاہرہ کرتی اور لوگوں کی داد پاکر بے حد خوش ہوتی سے مزید اداکاری کا جنون بڑھتا۔ اسی برے شوق کے سبب میں ہر وقت ہی بڑی اداکارہ بننے کے سپنے دیکھنے لگی، ان ہی کی طرح بنتی سنورتی اوران کے بے ہودہ انداز اپنانے کی کوشش کرتی۔
زندگی کی گاڑی بڑی تیزی کے ساتھ سے اپنی منزل( یعنی قبر) کی طرف رواں دواں تھی مگرمیں انمول سانسوں کی قدر ومنزلت سے نابلد دنیا ئے فانی کی محبت میں مستغرق تھی۔ مجھے یہ احساس تک نہ تھا کہ میرا اندازِ زندگی میری آخرت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ زندگی کے لیل و نہار اسی انداز پر گزرتے جارہے تھے کہ اسی دوران اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھ پر کرم فرمایا اور میرا اداکارہ بننے کا خمارمجھ سے زائل فرمایا۔
راہِ ہدایت ملنے اور شیطان کے شکنجے سے آزاد ہونے کی صورت کچھ یوں بنی ایک مرتبہ ہمارے گھر پر گیارھویں شریف کا انعقاد کیا گیا اور شہنشاہِ بغداد حضورِ غوثِ پاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ایصالِ ثواب کے لیے محفلِ نعت کا اہتمام کیا گیا، جس میں نیکی کی دعوت کے جذبے سے سرشار ایک مُبَلِّغَہ دعوتِ اسلامی بھی شریک ہوئیں۔ انہوں نے مجھ سے ملاقات کی، وہ بڑی ملنساری اور خوش