راہِ خدا عزوجل میں ہمارے اَسلاف کرام اور بزرگانِ دین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی پیش کردہ قربانیوں کے سبب ہی آج دین ِاسلام کا یہ چمنستان سرسبز و شاداب ہے ان نفوس قدسیہ کو پیش آنے والے مصائب و آلام کا تذکرہ بڑا دل سوز وجاں گداز ہے بالخصوص میدانِ کربلامیں اہل ِبیت اَطہار رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جو مصیبتیں جھیلیں ان کا تو تصور ہی دل دہلا دیتا ہے۔ جفاکار و ستم شعارکوفیوں نے جس بے مروتی اور بے دینی کا مظاہرہ کیا تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ خود ہی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صدہادرخواستیں بھیج کر کوفہ آنے کی دعوت دی اور جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی زمین کو شرف قدم بوسی عطا فرمایا تو بجائے استقبال کرنے کے وہ آپ کے خون کے پیاسے ہوگئے مسلح لشکر لیکر آپ کے سد ِراہ ہوئے نہ شہر میں داخل ہونے دیا نہ ہی وطن واپس لوٹ جانے پر راضی ہوئے، حسینی قافلہ کو ریگزار کربلا میں اقامت پذیر ہونا پڑا،کور باطنوں نے فرات کاآبِ رواں خاندانِ رسالت پر بند کردیا۔ اہل بیت کے ننھے ننھے حقیقی مدنی منے تشنہ لب ایک ایک قطرہ کے لئے تڑپ رہے تھے، چھوٹے چھوٹے بچے اورباپردہ بیبیاں سب بھوک و پیاس سے بیتاب ونا تواں ہوگئے تھے۔ تیز دھوپ، گرم ریت ، گرم ہوائیں، اور بے وطنی کا احساس الگ دامن گیر ہے۔ اُدھر بائیس ہزار کا لشکر جرار تیغ و سنان سے مسلح درپئے آزار اور اپنے ہنر آزمانے کا طلب گار ہے مگر بھوک پیاس کی شدت کے باوجود فرزندان آلِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم و رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایسی بہادری اور جواں مردی کا مظاہرہ کیا کہ اعدا انگشت بدنداں رہ گئے، کئی کئی یزیدیوں کو ہلاک کرنے کے بعد خاندانِ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نونہال دادِ شجاعت دیتے یکے بعد دیگرے شہادت سے سرفراز ہوتے گئے۔ عزیز واقارب، دوست واحباب، خدام و موالی،