اَسلاف کا اندازِ حیات:
میٹھے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے اسلاف کے اندازِ حَیات کی کچھ جھلک ملاحظہ کیجئےکہ کس طرح دُنیاوی عیش و آرائش سے دور رہ کر آخرت کو بہتر بنانے والی زندگی گزارتے تھے۔ چنانچہ،
بارونق گھر دیکھ کر رَو پڑے:
حضرتِ سَیِّدُنا ابنِ مُطِیع علیہ رَحْمۃُ السَّمِیع نے ایک دن اپنے بارونق گھر کو دیکھا تو خوش ہوگئے مگر پھر فوراً رونا شروع کردیا اور فرمایا:”اے خوبصورت مکان! اللهَّوَجَلَّ کی قسم !اگر موت نہ ہوتی تو میں تجھ سے خوش ہوتا اور اگر آخِرکار تنگ قَبْر میں جانا نہ ہوتا تو دنیا اور اس کی رَنگینیوں سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں۔“یہ فرمانے کے بعد اِس قَدَر روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ (1)
دنیا آخِرت کی تیّاری کیلئے مخصوص ہے:
حضرتِ سَیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو سب سے آخِری خُطبہ ارشاد فرمایا اس میں یہ بھی ہے:”اللهزَّوَجَلَّ نے تمہیں دنیا محْض اس لئے عطا فرمائی ہے کہ تم اسکے ذَرِیعے آخِرت کی تیّاری کرو اور اِس لئے عطا نہیں فرمائی کہ تم اسی کے ہوکر رَہ جاؤ،بیشک دنیا محْض
(1اِتحَافُ السَّادَۃِ الْمُتّقِیْن، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الباب الاول فی ذکر الموت،ج14،ص32