مدینہ کے پر آشوب ماحول میں جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا وصال ہوچکا ہے۔ اطراف مدینہ کے بہت سے لوگ دین اسلام سے پھر گئے۔ دشمنوں نے شہر رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر حملے کی تیاریاں مکمل کرلیں۔ اسلامی لشکر کو حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرکردگی میں روم کے مقابلہ پر خود رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم مرضِ وفات میں بھیج چکے تھے۔ سیاسی حالات نے سنگین رخ اختیار کرلیا ہے۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان کی رائے تھی کہ لشکر کو واپس بلالیا جائے۔ لیکن وہ عشق ہی تھا جس نے سب کے برخلاف پکار کر کہا قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ابو قحافہ کے بیٹے (ابوبکر)سے ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ اس لشکر کو پیچھے لوٹائے جسے اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے آگے بھیجا ہے۔ خواہ کتے ہماری ٹانگیں کھینچ لے جائیں مگر رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا بھیجا ہوا لشکر میں واپس نہیں بلاسکتااور اپنے آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا باندھا ہوا پرچم کھول نہیں سکتا۔
عشق کا فیصلہ عقل کے فیصلے سے بالکل متصادم تھا۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ جب