کہا: ’’تمہاری محبت کی زیادتی نے اُس کو ایسا بنا دیا ہے، اب اگر بھاگے تو تم اس کی پروا نہ کرنا، خود پریشان ہو کر جب واپس آئے گا تو کبھی نہ بھاگے گا۔‘‘ چنانچہ ماں باپ نے ایسا ہی کیا اور اس مردِ قلندر کی بات پر عمل کیا اور اسے نہ ڈھونڈا، آخر کار پریشان حال، دکھی، ٹھوکریں کھاتا، گرتا پڑتا ماں باپ کے پاس پہنچا تو پھر کبھی ماں باپ کو چھوڑ کر نہ گیا۔ (تفسیرِ نعیمی، ج۲، ص ۴۲۷)
مجرم سے منہ موڑ لو
مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان تفسیرِ نعیمی میں حضرت سیدنا علامہ اسماعیل حقی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں: شیخ طریقت کو چاہیے کہ مریدین کی ایک دو غلطیاں تو معاف کرے لیکن جب محسوس کرے کہ مرید جرم کا عادی ہو چکا ہے تو اس سے تعلق توڑ دے، اسے خود سے بالکل دور کردے، اب وہ کتنی ہی آہ و زاری کرے کتنا ہی روئے دھوئے مگر اسے اپنے پاس نہ بلائے، بلکہ اس سے کہے: کچھ دن مجرموں کے ساتھ رہ کر ان کا انجام دیکھ، پھر جب تمہیں ان کی حرکات سے پوری نفرت ہو جائے تب میرے پاس آنا کہ تمہیں ہماری صحبت کی قدر ہو اور پھر تم جرم سے باز رہو۔ مزید فرماتے ہیں: کبھی فراق (جدائی) بھی ذریعہ وصالِ دائمی (ہمیشہ کے ملاپ کاذریعہ) ہو جاتا ہے، ہجر (جدائی) سے وصل کی قدر