سَیِّدُنا غوث بہاؤ الحقِّ وَالدِّین زکریا مُلتانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی کے مزارِ پُر اَنوار پر سلام عرض کرنے کے لئے میں حاضِر ہوا، فاتِحہ کے بعد جب لوٹنے لگا تو ایک شخص پر میری نظر پڑی جو مشغولِ دُعا تھا۔ میں ٹھِٹھک کر وَہیں کھڑارہ گیا۔ دراز قد، مگر بدن نہایت ہی کمزور اور چہرے پر اُداسی چھائی ہوئی تھی۔ چَونک کر کھڑے ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس کے گلے میں پانی کا ایک ڈَول لٹکا ہوا تھا جس میں اس نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں ڈَ بَو رکھی تھیں، اُس کے چِہرے کو بَغور دیکھا تو کچھ آشنائی کی بُو آئی۔ میں اس کے فارِغ ہونے کا انتِظار کرنے لگا، جب اُس نے دعا ختم کی تو میں نے اُس کو سلام کیا، اُس نے سلام کا جواب دے کر میری طر ف بَغور دیکھا اور مجھے پہچان لیا۔ لمحہ بھر کے لئے اُس کے سُوکھے ہونٹو ں پرپِھیکی سی مُسکُراہٹ آئی اور فورًا ختم ہوگئی پھر حسبِ سابِق وہ اُداس ہوگیا۔ میں نے اُس سے گلے میں پانی کا ڈَول لٹکانے اور اُس میں دائیں ہاتھ کی اُنگلیاں ڈَبَو ئے رکھنے کا سبب دریافت کیا۔ اِس پر اُس نے ایک آہ ِسَرد،