Brailvi Books

عُیونُ الحِکایات (حصہ دوم)
14 - 412
حکا یت نمبر204:                 محتاجی کا خوف
    حضرتِ سیِّدُنا ابو القاسم بن جَبَلِی علیہ رحمۃ اللہ الولی فرماتے ہیں:'' ایک مرتبہ حضرت سیِّدُنا ابراہیم حَرْبی علیہ رحمۃ اللہ القوی اتنے شدید بیمار ہوئے کہ قریبُ المرگ ہوگئے میں ان کے پاس گیا تو فرمایا:'' اے ابو قاسم! میں اور میری بیٹی ایک امرِ عظیم میں مبتلا ہیں۔'' پھر اپنی صاحبزادی سے فرمایا: ''بیٹی !یہ تمہارے چچا ہیں ان کے پاس جاؤ اور گفتگو کرو۔''
    اس نے چہرے پرنَقاب ڈالا اور میرے قریب آکر کہا :'' اے میرے چچا ! ہم بہت بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں ،عرصۂ دراز سے ہم خشک روٹی کے ٹکڑے اور نمک کھا کر گزارہ کر رہے ہیں۔کَل خلیفہ مُعْتَضِدْبِاللہ کی طرف سے میرے والد ِ محترم کو ایک ہزار دینا راور ایک قیمتی موتی بھیجا گیا لیکن انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ فلاں ، فلاں نے تحائف وغیرہ بھجوائے لیکن انہوں نے وہ بھی قبول نہ کئے۔''ا پنی بیٹی کی یہ بات سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مسکرا کراس کی طرف دیکھا اور فرمایا:'' اے میری بیٹی ! کیا تمہیں محتاجی کاخوف ہے ؟'' کہا :'' ہاں ۔'' فرمایا:'' میرے پاس اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے بارہ ہزار عربی مَخْطُوْطے ہیں۔ میرے مرنے کے بعد روزانہ ایک ورق ،ایک درہم کے بدلے بیچ دیا کرنا۔ میری بیٹی! اب بتاؤ کہ جس کے پاس اتنی قیمتی اشیاء موجود ہوں کیا وہ محتاج ہو سکتا ہے؟ ایسا شخص ہر گز مفلس ومحتاج نہیں ، لہٰذا تم مفلسی و محتاجی سے بے خوف ہوجاؤ۔''

(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
حکایت نمبر205:             بیٹے کی موت کی تمنا
    حضرتِ سیِّدُنامحمد بن خَلَف وَکِیْع علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم حَرْبی علیہ رحمۃ اللہ القوی کاگیارہ سالہ اِکلوتا بیٹاحافظِ قرآن ،دینی مسائل سے واقف،بہت ہی فرمانبردار اور ذہین تھا۔ اچانک اس کا انتقال ہوگیا۔ میں نے تعزیت کی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' میں توخود اس کی موت کا مُتَمَنِّیْ(یعنی تمناکرنے والا)تھا۔ ' ' میں نے کہا:'' آپ صاحبِ علم ہوکر اپنے فرمانبردار اور ذہین بیٹے کے بارے میں ایسی باتیں کر رہے ہیں! حالانکہ وہ تو قرآن وحدیث اور فقہ کا جاننے والاتھا ۔''

     فرمایا:''میں نے خواب دیکھا کہ قیامت بر پا ہوگئی ۔اور میدانِ مَحشر میں گرمی اپنی انتہاکوپہنچ چکی تھی ۔ چھوٹے چھوٹے بچے اپنے ہاتھوں میں پیالے لئے، بڑھ بڑھ کر لوگوں کو پانی پلا رہے ہیں ۔ میں نے ایک بچے سے کہا:'' بیٹا! مجھے بھی پانی پلاؤ۔'' بچے نے میری طرف دیکھ کر کہا:'' تم میرے والد نہیں ہو، (میں تمہیں پانی نہیں پلا سکتا ) ۔'' میں نے پوچھا :''تم کون ہو ''؟کہا: ''ہمارا
Flag Counter