مسلسل پریشانیوں نے میرے اعصاب شل کردئيے تھے ۔مجھے کوئی ایسا ہمدرد اور غمگسار چاہئيے تھا جس کے کندھے پر سر رکھ کر چند اَشک بہا لُوں مگر آہ !ميں بالکل تنہا تھا۔ایسے وقت میں مجھے نماز پڑھنے میں بڑا سکون اور حوصلہ ملتا تھا۔ ميری زبان پر دُرُود شريف جاری رہتا ۔اب ميں نے ہمت کرکے3کلومیٹر دُور ''جَنتا کالونی'' کی مسجدميں باجماعت نماز ادا کرنے کے لئے جانا شروع کردیا ۔گھر والے ایک بارپھر نرم پڑ چکے تھے۔ایک روز محلے کے کسی نام نہادمسلمان نے پھر گھر والوں کا ذہن خراب کرنے کی کوشش کی کہ'' ہم بھی مسلمان ہيں ہم کون سی نمازيں پڑھتے ہيں ؟ جمعہ يا عيد کی نماز پڑھ لی بس کافی ہے! تمہارا بیٹاضرور کسی جن کو قابو کرنے کا عمل کر رہا ہے،یہ پاگل ہوجائے گاتو پتا چلے گا۔''اس کی باتیں سن کرگھر والے ڈر گئے اور پھر سے سختی کرنا شروع کر دی حتی کہ ميرے ہونٹ ہلانے پر بھی پابندی لگادی گئی ۔گھر والے مجھے پکڑ کر ايک عامل کے پاس لے گئے ۔ اس نے بھی کہہ ديا کہ مجھ پر ''اثرات'' ہيں !
ان حالات سے میں بہت دلبر داشتہ ہوا اور شایددوبارہ کفر کے اندھیروں میں کھو جاتا مگر ربّ عَزَّوَجَلَّ کا کرم کہ میں نے دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول ميں عاشقانِ رسول کے بیان کردہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم اور حضرتِ بلال رضی اللہ عنہ پرہونے والے مظالم کی داستا ن سن رکھی تھی ،ان مظالم کے سامنے میری تکالیف