مونڈنے سے انکار کردیا ۔میرے گھر والے بھی داڑھی کاٹنے سے ڈر رہے تھے مگر افسوس کہ علمِ دین سے بے بہرہ ایک مسلمان نے گھر والوں سے کہا :'' داڑھی رکھنا ضروری نہيں ہے ، ہميں دیکھو! لاکھوں مسلمان کہاں داڑھی رکھتے ہيں؟''اسی بنياد پر گھر والوں نے سوتے ميں بلیڈ سے ميری داڑھی مونڈنا شروع کر دی۔ ميرا چہرہ لہولہان ہو گيا ،ميں رورو کر انہیں اس کام سے باز رہنے کی التجائیں کرتا رہا مگر انہوں نے میری ایک نہ سُنی اور داڑھی مونڈ کر ہی دم لیا ۔ چہرے سے بہنے والا لہو میرے آنسوؤں میں شامل ہوگیا ۔کفر کی تاریکی میں گِھرے ہوئے گھر والوں کو یہ بھی احساس نہ رہا کہ میں بھی اِسی گھر میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا ہوں ۔انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ مجھے ایک کمرے میں قید کردیا ۔تن کے کپڑوں کے علاوہ میرے پاس کوئی لباس نہ تھا ۔ میری نگرانی کی جاتی مگر میں کسی نہ کسی طرح چھپ کر نمازیں ادا کرتا۔ نیند کی قربانی دے کر بھی اپناوُضُو قائم رکھتا تاکہ موقع ملنے پرنماز ادا کر سکوں۔میرا کوئی پُرسانِ حال نہ تھا نہ مجھے کوئی ہمدرد دکھائی دیتا جسے میں اپنی بپتا (یعنی دُکھ بھری داستان)سناتا ۔ تقریباً 2ماہ اسی طرح گزر گئے یہاں تک کہ رمضان المبارَک کا مقدس مہينہ تشريف لے آيا ۔ آزمائشوں کی اِن راتوں میں کون مجھے سحری فراہم کرتا مگر رمضان کا روزہ چھوڑنا مجھے گوارا نہ ہوا چنانچہ ميں نے بِغير سَحری روزہ رکھ