۱؎ یعنی فخر و تکبر کے انداز میں لوگوں سے کہتا رہتا ہے کہ یہ میرا مکان ہے،یہ میری جائیداد ہے،یہ میرا کنواں ہے،یہ میرا فلاں مال ہے یہ برا ہے۔انسان کو چاہیے کہ یقین رکھے کہ میں اور میرا مال سب اللہ تعالٰی کی ملک ہے میرے پاس چند روزہ ہے عارضی ہے۔خیال رہے کہ جسے انسان اپنا مال کہے اس کا مال یعنی انجام نرا وبال ہے اور جو مال ذریعہ عبادت ہے وہ ذریعہ آمال ہے جس سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔
۲؎ یعنی جو مال انسان کے کام آویں وہ صرف تین ہیں ان کے علاوہ سب دوسروں کے کام آتے ہیں۔خیال رہے کہ انّ مالہ میں ما مو صولہ ہے اور لہ اس کا صلہ اور من مالہ میں من بعضیت کا ہے یعنی اس کے مال میں سے وہ جو اسے مفید ہو صرف تین ہیں۔
۳؎ اﷲ تعالٰی کے بینک ہیں جہاں جمع کرنے سے بے شمار نفع ملتا ہے۔سبحان اللہ ! کیسی نفیس تعلیم ہے۔دینے سے مراد راہِ خدا میں دینا ہے خواہ بال بچوں کو دے یا عزیزوں یا غریبوں کو بشرطیکہ یہ دینا ناموری کے لیے نہ ہو اللہ رسول کی خوشنودی کے لیے ہو۔
۴؎ ھوذاھب میں ھو ضمیر بندے کی طرف لوٹتی ہے۔ذاھب سے مراد مرنے والا یعنی ان تین مالوں کے سوا اور مالوں کا یہ حال ہے کہ بندہ مرجاتا ہے اور وہ مال دوسروں کے لیے رہ جاتا ہے جیسے زمین باغات،مکانات،نقدی،بنک بیلنس وغیرہ۔اس فرمان عالی کا مقصد یہ ہے کہ مال میں سے اﷲ رسول کا حصہ ضرور نکالتا رہے،یہ مقصد نہیں کہ مکان جائیداد بنائے ہی نہیں،اپنے بچوں کو فقیر کرکے چھوڑے یا یہ مقصد ہے کہ مال کی محبت دل میں نہ ہو دل خاص اللہ رسول کے لیے ہو۔شعر
دل میں ہو یاد تیری گوشۂ تنہائی ہو پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو
سارا عالم ہو مگر دیدہ دل دیکھے تمہیں انجمن گرم ہو اور لذت تنہائی ہو