Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد پنجم
1 - 1040
بسم اللہ الرحمن الرحیم
كتاب النكاح

نکاح کا بیان ۱؎
كتاب النكاح

نکاح کا بیان ۱؎
۱؎ نکاح نکح سے بنا بمعنی ضم یعنی ملنا،چونکہ نکاح کی وجہ سے دو شخص یعنی خاوندوبیوی دائمی مل کر زندگی گزارتے ہیں بلکہ نکاح سے عورت و مرد کے خاندان بلکہ نکاح سے کبھی دو مُلک  مل جاتے ہیں اس لیے اسے نکاح کہتے ہیں۔اصطلاح شریعت میں یہ لفظ مشترک ہے صحبت و عقد دونوں پر بولا جاتا ہے،نکاح کا رکن زوجین کا ایجاب و قبول ہے،شرط دو گواہ۔نکاح اور ایمان یہ دو ایسی عبادتیں ہیں جو آدم علیہ السلام سے شروع ہوئیں اور تاقیامت رہیں گی،نکاح بہترین عبادت ہے کہ اس سے نسل انسانی کا بقا ہے یہ ہی صالحین و ذاکرین و عابدین کی پیدائش کا ذریعہ ہے۔ نکاح انسان مرد کا صرف انسان عورت ہی سے ہوسکتا ہے نہ جن سے ہوسکتا ہے نہ دریائی انسان سے نہ کسی جانور سے کیونکہ نکاح میں ہم جنس ہونا شرط ہے۔(در مختار،شامی) جنت میں انسان مَردوں کا نکاح حوروں سے یہ وہاں کی خصوصیات سے ہے،ورنہ حوریں انسان یعنی اولاد آدم نہیں اس لیے آدم علیہ السلام کو جب جنت میں رکھا گیا تو انہیں وہاں کے پھل وغیرہ کھانے کی تو اجازت تھی مگر حوروں کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی بلکہ ان کی ہم جنس بی بی حوّا پیدا فرمائی گئیں،نیز ادریس علیہ السلام اور شہدا کی روحیں جو جنت میں ہیں انہیں وہاں کھانے پینے کی اجازت ہے مگر حوروں کی اجازت نہیں یہ اجازت بعد قیامت ہوگی کیونکہ قیامت سے پہلے نکاح کے لیے جنسیت شرط ہے۔حسن ابن زیاد کا قول ہے کہ انسان مرد کا نکاح جنی عورت سے جائز ہے اس کے عکس نہیں مگر اس پر فتویٰ نہیں۔(درمختار)خیال رہے کہ نکاح بحالت سکون سنت ہے اور اندیشہ زنا یعنی زیادتی جوش کی حالت میں فرض اور نامرد پر جرم جو عورت کے خرچہ پر قادر نہ ہو یا جو ظلم کا صحیح اندیشہ کرتا ہو اس کے لیے مکروہ۔(مرقات، اشعہ،لمعات،و درمختاروغیرہ)
حدیث نمبر 1
روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن مسعود سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے اے جوانو کی جماعت ۱؎ تم میں سے جو نکاح کی طاقت رکھے وہ ضرور نکاح کرے ۲؎ کیونکہ نکاح نگاہ نیچی کرنے والا ہے اور شرمگاہ کا محافظ ۳؎ اور جو طاقت نہ رکھے وہ روزے لازم کرے کہ یہ روزے اس کی حفاظت ہیں۴؎ (مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ معشر عشیرۃ سے بنا بمعنی کنبہ،قبیلہ،گروہ یہاں تیسرے معنی میں ہے یعنی گروۂ شباب،شاب بمعنی جوان کی جمع ہے،فاعل کی جمع بروزن فعال آتی ہے۔ بلوغ سے لے کر تیس سال کی عمر جوانی کی ہے، شوافع کے نزدیک چالیس سال تک جوانی ہے،انسانی عمر کی حدود اور ان کے نام ہماری تصنیف حاشیۃ القرآن میں دیکھئے ۔جوانوں سے اسی لیے خطاب فرمایا کہ اگلا مضمون ان ہی کے لائق ہے۔

۲؎  باء،بات،باھت،باہ ان چاروں لفظ کے ایک ہی معنی ہیں گھر یا منزل،پھر صحبت یا نکاح پر بھی یہ لفظ بولا جانے لگا اس کے لیے گھر کی ضرورت ہوتی ہے،اسی سے ہے باءٌ یبوء لوٹنے کے معنی میں یہاں مضاف پوشیدہ ہے یعنی جو نکاح کے مصارف کی طاقت رکھے یہ امر نسبت کے لیے ہے۔یعنی جس میں نکاح کے مصارف برداشت کرنے کی طاقت ہو وہ نکاح کرے،یہ حدیث احناف کی دلیل ہے کہ نوافل سے نکاح افضل ہے،شوافع کے ہاں نوافل میں مشغول رہنا نکاح سے افضل ہے۔

۳؎ یعنی بیوی والا آدمی پاک دامن و نیک ہوتا ہے نہ تو غیر عورتوں کو تکتا ہے،نہ اس کا دل بدکاری کی طرف مائل ہوتا ہے،غرضیکہ نکاح آدمی کے لیے حفاظتی قلعہ ہے۔

۴؎ وِجَاءٌ کے معنے ہیں خصیے کوٹ دینا جس سے نامرد ہوجائے یعنی روزہ انسان کی شہوت کو اس طرح مار دیتا ہے جیسے خصی کردینا،کیونکہ بھوک سے نفس ضعیف ہوتا ہے اور شہوت قوت نفس سے زیادہ ہوتی ہے۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ نفس کو توڑنے کے لیے بھوک سے زیادہ کوئی چیز نہیں اسی لیے قریبًا ہر دین میں روزہ کا حکم ہے۔
Flag Counter