۱؎ یعنی حضرت عثمان ابن مظعون نے جو سردران مہاجرین سے ہیں حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم سے ترک دنیا کی زندگی گزارنے کی اجازت چاہی کہ نکاح نہ کریں ساری عمر عبادات و ریاضات میں گزاریں،حضور علیہ السلام نے اس سے منع فرمادیا۔خیال رہے تبتل بناہے تبل سے بمعنی انقطاع و علیحدگی،رب تعالٰی فرماتا ہے:"وَ تَبَتَّلْ اِلَیۡہِ تَبْتِیۡلًا"اب دنیا سے علیحدگی کو تبل کہا جاتا ہے، اسی سے ہے بتول حضرت مریم علیہا السلام کو بتول کہتے ہیں کہ وہ نکاح سے علیحدہ رہیں،فاطمہ زہرا کا لقب بھی بتول ہے کہ آپ دنیاوی الجھنوں سے علیحدہ رہیں کبھی دنیا میں دل نہ لگایا۔
۲؎ یا تو خصی ہونے سے ظاہر ی معنے مراد ہیں کہ ہم لوگ ترک دنیا کے لیے خود کو خصی کرلیتے ہیں شاید ان بزرگوں کو اس وقت یہ مسئلہ معلوم نہ تھا کہ انسان کو اور حرام جانوروں کو خصی کرنا حرام ہے اور حلال جانوروں کا خصی کرنا ان کے بچپن میں جائز ہے بڑے ہونے پر حرام اس لیے یہ فرمارہے ہیں،یا خصی ہونے سے مراد ہے بالکل ہی عورتوں سے علیحدگی یعنی ہم گویا خصی ہوجاتے ۔ (لمعات و مرقات)یہ حدیث بھی امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کی دلیل ہے کہ نوافل سے نکاح افضل ہے۔حدیث شریف میں نکاح کے بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں خود ہمارے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل بتارہا ہے کہ نکاح اعلیٰ عبادت ہے ورنہ حضور ترک دنیا کی زندگی گزارتے لہذاقول امام اعظم بہت قوی ہے۔