۱؎ یعنی جیسے مجاہد جاتے آتے ہر حال میں عبادت کا ثواب پاتاہے ایسے ہی انصاف والا عامل ہر حال میں ثواب پائے گا کیونکہ مجاہد اسلام کے پھیلانے کا ذریعہ ہے اور یہ عامل اسلامی قانون پھیلانے،مالداروں کو ان کے فریضہ سے فارغ کرنے اور فقراء کو ان کا حق دلانے کا ذریعہ۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر نیت خیر ہو تو دینی خدمت پر تنخواہ لینے کی وجہ سے اس کا ثواب کم نہیں ہوتا،دیکھو ان عاملوں کو پوری اجرت دی جاتی مگر ساتھ میں یہ ثواب بھی تھا۔چنانچہ مجاہد کو غنیمت بھی ملتی ہے اور ثواب بھی،حضرات خلفائے راشدین سواء حضرت عثمان غنی کے سب نے خلافت پر تنخواہیں لیں مگر ثواب کسی کا کم نہیں ہوا،ایسے ہی وہ علماء یا امام و مؤذن جو تنخواہ لے کر تعلیم،اذان،امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اگر ان کی نیت خدمت دین کی ہے تو ان شاءاﷲ ثواب بھی ضرور پائیں گے۔ہم نے اپنی تفسیر میں لکھاہے کہ شرعی مسئلہ بتانے کی اجرت لینا حرام ہے مگر فتویٰ لکھنے کی اجرت لینا جائز،رب تعالٰی فرماتاہے:"لَا یُضَآرَّکَاتِبٌ وَّلَا شَہِیۡدٌ"۔