اسلام کی روشن تعلیمات
بڑوں کا احترام کیجئے
(محمد عدنان چشتی عطاری مدنی)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہماراپیارا دین ”اسلام“تعلیم دیتا ہے کہ جو عمر اور مقام ومرتبے میں چھوٹا ہو ، اس کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاؤ کریں اور جو علم ،عمر ،عہدے اور منصب میں ہم سے بڑے ہیں، ان کا ادب و احترام بجالائیں ۔ ہمارے بڑوں میں ماں باپ ، چچا تایا ،خالو،مامو، بڑے بہن بھائی دیگر رشتہ دار ،اساتذہ پیر و مرشد ، علما و مشائخ اور تمام ذی مرتبہ لوگ شامل ہیں ۔ زندگی بھر کسی نہ کسی طرح ہمارا اپنے بڑوں رابطہ ضرور رہتا ہے ،اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان کا ادب واحترام کریں ۔ ان کے ادب واحترام کا حکم خود ہمارے پیارے آقا نے یوں ارشاد فرمایا : وَقِّرِِالْکَبِیْرَ وَارْحَم ِالْصَّغِیْرَ تُرَافِقْنِیْ فِی الْجَنَّۃَ یعنی بڑوں کی تعظیم و توقیر کرو اور چھوٹوں پر شفقت کرو، تم جنّت میں میری رفاقت پالو گے۔(شعب الایمان،ج7،ص458،حدیث:1098،بیروت) دوسری روایت میں ہے: تم اپنی مجالس کو بوڑھے کی عمر،عالم کے علم اور سلطان کے عہدے کی وجہ سے کشادہ کردیا کرو۔(کنز العمال، ج9، ص66،حدیث25495،بیروت)
معلوم ہوا بڑوں کی عزت و تعظیم اور ادب و احترام باعثِ نجات اور جنّت میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رفاقت پانے کا ذریعہ ہے۔ والدین کے ادب و احترام کے متعلق اللہ والوں کا کتنا پیارا انداز ہوا کرتا تھا جیسا کہ حضرت امام ابنِ شہاب زہری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہفرماتے ہیں : حضرت سیدنا امام احسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی والدہ کے بہت فرماں بردار تھے،مگر اس کے باوجود اپنی والدہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہاکے ساتھ کھانا تناول نہیں فرماتے تھے ۔کسی نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کا سبب دریافت کیا تو ارشاد فرمایا ا: میں امّی جان کے ساتھ اس خوف کی وجہ سے کھانا نہیں کھا تا کہ کہیں ایسا نہ ہو کسی چیزپر ان کی نظر پہلے پڑجائے اور انجانے میں وہ چیز ان سے پہلے کھاکر ان کا نافرمان ہو جاؤں۔(بر الوالدین لابن جوزی ، ص53،رقم :66بیروت)ماں باپ کا احترام اور ان کی خدمت کرنا یقیناً بڑی سعادت مندی ہے ۔ ہمارے حق میں ان کے دل سے نکلی دعا ہماری دنیا وآخرت سنوار سکتی ہے۔
اسی طرح قریبی رشتہ داروں سے صلۂ رحمی اور ان کا احترام یقیناً باعثِ سعادت ہے کہ حدیث ِ پا ک میں ان سے صلۂ رحمی کرنے پر عمر میں اضافہ اور رزق میں وسعت (یعنی زیادتی ) کی بشارت ہے۔ (الترہیب و الترہیب ،ج3،ص217،حدیث: 16،بیروت) ہرمسلمان کو چاہئےکہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ ہر مسلمان کا ادب و احترام کرے ، انہیں تکلیف پہنچانے سے بچےکہ ہمارے پیارے مکی مدنی آقا نے فرمایا: آپس میں ایک دوسر ے سے قطع تعلق نہ کر و ،پیٹھ نہ پھیرو، بغض نہ رکھو ، حسد نہ کرو اور اے بندگانِ خدا !آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، کسی مسلمان کےلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین(3)دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے ۔ “(ترمذی،ج3،ص376،حدیث:1942)
دینِ اسلام استاد کے ادب و احترام کا بھی حکم دیتا ہے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہفرماتے ہیں :مَنْ لَّااَدَبَ لَہٗ لَا عِلْمَ لَہٗ یعنی جو بے ادب ہو ،وہ علم سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا۔(المنبہات ،ص13پشاور)اسی لیے بزرگانِ دین اپنے استادوں کا بے حد ادب و احترام کرتے تھے ۔ ان کی موجودگی میں نگاہیں جھکا ئے ،ہمہ تن گوش ہو کر علم حاصل کرتے ۔جیسا کہ حضرت سیدنا امیر