مدنی آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے روشن فیصلے |
فائدہ دیتا ہے شایداسی وجہ سے امام ابو داؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس روایت پر سکوت اختيارکيا۔
پس جان لیجئے کہ مصعب کمزورنہیں بلکہ حدیث میں نرم تھا ۔جب اس کے ساتھ اسی کی مثل روایت مل جائے تو اس حدیث پرحَسن کا حکم لگایا جائے گا اور جب اس کے ساتھ کسی دوسرے صحابی سے روایت لینے میں تیسرا اور چوتھا متابع اور صحیح شاہد مل گیا تو پھر اس حدیث کے درجہ ـ صحیح تک پہنچنے میں کوئی شک نہیں رہتا۔اسی لئے امام ابوداؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیثِ پاک خصوصاً آخری سندسے استدلال کیا جس کے تمام راوی ثقہ ہیں اور ان میں سے کسی پر کوئی طعن نہیں کیا گیا ۔امام ابن حبان علیہ رحمۃ اللہ المنّان (354-270ھ) نے سعید بن یحیٰ کو ثقہ راویوں میں ذکر کیا ہے پس حضرت سیدناحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کی طرح حضرت سیدناجابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کا صحیح ہونا بھی ثابت ہوگیا ۔وللہ الحمد(اور تمام خوبیاں اللہ عزوجل کے لئے ہیں)۔
علامہ خطابی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(388-319ھ)'' مَعَالِمُ السُّنَنِ۱؎ '' میں اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں کہ'' مَیں فقہاء میں سے کسی فَقیہہ کو نہیں جانتا جس نے چورکوقتل کرنا جائز قرار دیاہو اگر چہ اس نے بار بار چوری کی ہو۔ لہذا اسے اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ حضورنبئ غیب دان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اس فیصلہ سے یہی معلوم ہو تا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جانتے تھے کہ وہ بار باريہ برافعل کریگا۔ اور اس بات پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے کہ اللہ عزوجل کے وحی نازل فرمانے یا اس کے مستقبل کے حال پرمطلع کرنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا
۱؎ فی شرح سنن ابی داؤد لاحمد بن محمد بن ابراھیم الخطابی( المتوفی ۳۸۸ھ)(کشف الظنون،ج۲،ص۱۰۰۵)