لباب الاحیاء (احیاء العلوم کا خلاصہ) |
کرام جیسے حضرت سیِّدُنا ابراہیم ، حضرت سیِّدُناموسیٰ ،حضرت سیِّدُناعیسیٰ اورحضرت سیِّدُنا نوح علٰی نبینا وعلیہم الصلٰوۃ والسلام زمین پر بیٹھے ہیں ۔ میں ان کی زیارت کرنے لگا اور ان کا کلام سننے لگا۔ اسی دوران حضرت سیِّدُنا موسیٰ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے گفتگو کرتے ہوئے عرض کی:''آپ کا فرمان ہے:
''عُلَمَاءُ اُمَّتِیْ کَأنْبِیَاءِ بَنِیْ إسْرَائِیْلَ
یعنی میری اُمّت کے علما ء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔'' لہٰذا مجھے ان میں سے کوئی دکھائیں۔'' تو اللہ کے پیارے حبیب ،حبیبِ لبیب عزَّوجلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضرت سیِّدُنا اما م محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی طرف اشارہ فرمایا۔حضرت سیِّدُنا موسیٰ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایک سوال کیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دس جواب دئيے۔تو حضرت سیِّدُنا موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ جواب سوال کے مطابق ہونا چاہے ،سوال ایک کیا گيا اور تم نے دس جواب دئيے تو حضرت سیِّدُناامام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی نے عرض کی: ''جب اللہ عزَّوجلَّ نے آپ سے پوچھا تھا:''وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ ترجمۂ کنز الایمان : تیرے ہاتھ میں کیا ہے۔'' تو اتنا عرض کر دینا کافی تھا کہ'' یہ میری چھڑی ہے۔'' مگرآپ نے اس کی کئی خوبیاں بیان فرمائیں۔''(یہ واقعہ فتاوٰی رضویہ ج۲۸،ص۴۱۰اورالنبراس شرح شرح العقائدص۲۴۷پربھی موجودہے) علماء کرام کَثَّرَھُمُ اللہ تَعَالٰی فرماتے ہیں کہ گویاامام غزالی علیہ رحمۃاللہ الوالی ، حضرت سیِّدُنا موسی کلیم اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی بارگاہ میں عرض کررہے ہیں کہ''جب آپ کاہم کلام ،باری تعالیٰ تھاتوآپ نے وفورِمحبت اورغلبۂ شوق میں اپنے کلام کوطول دیاتاکہ زیادہ سے زیادہ ہم کلامی کاشرف حاصل ہوسکے اوراس وقت مجھے آپ سے ہم کلام ہونے کاموقع ملاہے اورکلیم خداعزَّوجلّ سے گفتگوکاشرف حاصل ہواہے اس لئے میں نے اس شوق ومحبت سے کلام کوطوالت دی ہے۔''(کوثرالخیرات، ص۴۰)
وصال پُرملال :
حضرت سیِّدُنااما م محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی تقریباًنصف صدی آسمانِ علم وحکمت کے اُفق پر آفتاب بن کر چمکتے رہے ۔ بالآخر ۵۰۵ھـ طوس میں وصال فرماگئے۔ بوقتِ وصال آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عمر مبارک55 سال تھی۔ خُدَا رَحْمَتْ کُنَنْدْ اِیں بَندْگانِ پَاکْ طِینَتْ رَا یعنی ا للہ تعالیٰ اپنے ان نیک خصلت بندوں پر رحمت نازل فرمائے ۔(آمین) (اللہ عزَّوجلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
(ماخوذ از اتحاف السادۃ المتّقین ، تفسیر روح البیان،فتاوی رضویہ،النبراس شرح شرح العقائد، کوثرالخیرات وغیرہا)
مقدَّمہ
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تمام نعمتوں پر اور اس نے جو اپنی حمد کرنے کی توفیق عطا فرمائی اس پر اس کا شکر ہے، اور درودوسلام ہو تمام رسولوں کے سردار حضرت سیِّدُنامحمدمصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر جواللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی ،رسول اور بندۂ خاص ہیں اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی آل ، اصحاب ،آپ کے خلفاء اورآپ کے وزراء پررحمتیں ہوں۔ امَّابعد! (حجۃالاسلام امام محمدغزالی علیہ رحمۃاللہ الوالی فرماتے ہیں) مجھ پر اپنے کچھ سفروں کے دوران یہ بات ظاہر ہوئی کہ میں اپنی کتاب ''احیاء علوم الدین'' کا خلاصہ مرتب کردوں کیونکہ اس کے بہت زیادہ ضخیم ہونے کی وجہ سے اس سے نفع حاصل کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی پس میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے توفیق و بھلائی چاہتے ہوئے اور نبئ اَکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں درودوسلام کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اس کام کا آغاز کیا۔(جوپایۂ تکمیل تک پہنچا) اس خلاصہ کے چالیس ابواب ہیں جو چار حصوں پرمشتمل ہیں : (۱)۔۔۔۔۔۔عبادات(۲)۔۔۔۔۔۔عادات(۳)۔۔۔۔۔۔مہلکات (۴)۔۔۔۔۔۔منجیات اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی سیدھی راہ کی توفیق بخشنے والا ہے۔