اس کذاب نے سنا کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آبِ دہن لگایا تھا تو انکی آنکھوں کی تکلیف ختم ہوگئی تھی اس نے بھی کئی مریضوں کی آنکھوں میں تھوک لگایا مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس کی آنکھ میں یہ تھوک لگاتا وہ بد نصیب اندھا ہوجاتا تھا۔ایک معتقد نے آکر بیان کیا کہ میرے بہت سے بچے مرچکے ہیں صرف دو لڑکے باقی ہیں آپ ان کی درازی عمر کی دعا کریں کذاب نے دعا کی اور کہا جاؤ تمہارے چھوٹے بچے کی عمر چالیس سال ہوگی یہ شخص خوشی سے جھومتا ہوا گھر پہنچا تو ایک اندوہناک خبر اس کی منتظر تھی کہ ابھی اس کا ایک لڑکا کنویں میں گر کر ہلاک ہوگیا ہے اور جس بچے کی عمر چالیس سال بتائی تھی وہ اچانک ہی بیمار ہوا اور چند لمحوں میں چل بسا اور ایک روایت کے مطابق ایک لڑکے کو بھیڑیے نے پھاڑ ڈالا تھا اور دوسرا کنویں میں گر کر ہلاک ہوا تھا ۔
ان لوگوں پر تعجب ہے جو اس ملعون کے ایسے کرتوتوں کے باوجود اس کی پیروی کرتے تھے اور اس سے بیزار نہ ہوتے تھے چونکہ جاہلوں کی جماعت میں غرض کے بندے شامل تھے لہٰذا جب سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا وصالِ ظاہری ہوا تو اس کا کاروبار چمک گیا اور ایک لاکھ سے زیادہ جہال اس کے ارد گرد جمع ہوگئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت مقدسہ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ۲۴ ہزار کا لشکر لیکر اس کے استیصال کو تشریف لے گئے ان کے مقابل ۴۰ ہزار کا لشکر کفار تھا فریقین میں خوب لڑائی ہوئی یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور یہ بد بخت کذاب حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں واصل با جہنم ہوا اور اس وقت آپ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا : میں زمانہ کفر میں سب سے اچھے آدمی کا قاتل تھا اور زمانہ اسلام میں