اللہ تعالیٰ عطا فرمائے تو وہیں ان کی قدر معلوم ہوگی۔ جنت کی وسعت (۱)کا یہ بیان ہے کہ اس میں سو درجے ہیں ہر درجے سے دوسرے درجہ تک اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان۔اگر تمام جہاں ایک درجہ میں جمع ہو تو ایک در جہ سب کیلئے کفایت کرے۔ دروازے اتنے وسیع کہ ایک بازو سے دوسرے تک تیز گھوڑے کی ستّر برس کی راہ ہے۔ جنّت میں صاف، شفاف، چمکدار سفید موتی کے بڑے بڑے خیمے نصب ہیں ان میں رنگا رنگ، عجیب و غریب، نفیس فرش ہیں ان پر یاقوتِ سُرخ کے منبر ہیں۔ شہد و شراب کی نہریں جاری ہیں ان کے کناروں پر مرصع(۲) تخت بچھے ہیں ۔پاکیزہ صورت و لباس والے غلمان و خدام کے انبوہ(۳) ہیں جو ہر وقت خدمت کیلئے تیار ہیں۔ نیک خو(۴)، خو برو(۵) حسین و جمیل حوریں جن کے حُسن کی چمک دنیا میں ظاہرہو تو اس کے مقابل آفتاب کا نور پھیکا پڑجائے۔ ان نازنینوں (۶)کے بد ن غایت(۷) و خوبی سے ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا وہ یاقو ت و مرجان کے بنے ہوئے ہیں۔ جب وہ ناز کے ساتھ خراماں ہوتی ہیں(۸) تو ہزارہا نور پیکر(۹)خدام ان کے آنچل (۱۰)اٹھائے چلتے ہیں۔ انکے ریشمی لباس کی چمک دمک نگاہوں کو جھپکاتی اور دیکھنے والوں کو متحیر (۱۱)بناتی ہے ۔ مروارید(۱۲) و مرجان کے مرصع تاج ان کے زیب سر ہیں۔ ان کا رنگ ڈھنگ ان کے نازوادا(۱۳) ان کے جواہرات کو شرما دینے والے صاف چمکدار اور عطر بیز (۱۴)بدن اہل جنت کیلئے کیسے فرحت انگیز (۱۵)ہیں جن سے پہلے کسی انس و جن نے ان حوروں کو چھوا تک نہیں۔ پھر یہ حُسن دلکش دنیا کے حُسن کی طرح خطرہ میں نہیں کہ جوانی کا رنگ روپ بڑھاپے میں رخصت ہو جائے وہاں بڑھاپا ہے نہ اور