حکایتیں اور نصیحتیں |
(۶)۔۔۔۔۔۔میری برائیاں بہت زیادہ ہوچکی ہیں اور نیکیا ں بربادہو چکی ہیں۔ پھر وہ روتے ہوئے کہنے لگا: ''اے میری ماں!افسوس ہے اس پر کہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نافرمانوں میں حد سے بڑھ گیا افسوس اس دل پر جسے میں سخت کرتا رہا، اے میری ماں! تجھے اللہ عزَّوَجَلَّ کی قسم! جب میں مر جاؤں تو میرے رخسارکو زمین اور مٹی پر رکھ کر میرے دوسرے رخسار پر اپنا قدم رکھ دینا اور کہنا کہ یہ جزا ہے اس بندے کی جس نے اپنے مولیٰ کی نافرمانی ومخالفت کی، اس کے حکم کو ترک کیا، اپنی خواہش کے پیچھے چلا۔ جب آپ مجھے دفن کر لیں تو اپنے ہاتھوں کواللہ عزَّوَجَلَّ کی جناب میں بلند کرکے کہنا:
''اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ رَضِیْتُ عَنْہ، فَارْضِ عَنْہ،
''یعنی ا ے اللہ عزَّوَجَلَّ میں اس سے را ضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔'' جب یہ مرا تو میں نے اس کی تمام وصیتوں کو پوراکیا۔ اب جب میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو مجھے ایک آواز سنائی دی: ''اے میری ماں!اب لوٹ جا، میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور اس حال میں آیا کہ وہ مجھ پر ناراض نہ تھا۔'' جب میں نے یہ آواز سنی تو مسکرانے لگی۔'' حضرتِ سیِّدُنا منصوربن عمارعلیہ رحمۃاللہ الغفار فرماتے ہیں: ''جب بندے کی موت کا وقت قریب آتا ہے تومرنے والے کی حالت پانچ طرح کی ہوتی ہے: (۱)۔۔۔۔۔۔مال وارث کے لئے (۲)۔۔۔۔۔۔روح ملک الموت علیہ السلام کے لئے (۳)۔۔۔۔۔۔ گوشت کیڑوں کے لئے (۴)۔۔۔۔۔۔ہڈیاں مٹی کے لئے اور(۵)۔۔۔۔۔۔نیکیاں خُصُوم یعنی قیامت کے دن اپنے حق کا مطالبہ کرنے والوں کے لئے ہوتی ہیں۔ مزید فرماتے ہیں کہ ''وارث ما ل لے جا ئے تو قابل برداشت ہے، اسی طرح ملک الموت علیہ السلام روح لے جائيں تو بھی درست ہے مگر اے کا ش !موت کے وقت شیطان ایمان نہ لے جا ئے ورنہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے جدائی ہو جائے گی، ہم اس سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ طلب کرتے ہیں کیونکہ اگرسب فراق ایک طرف جمع ہوجائیں اورربّ عَزَّوَجَلَّ کا فراق ایک طرف ہو تو یہ تمام فراقوں سے زیادہ بھاری ہے جسے کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔ حضرتِ سیِّدُنا محمد بن نعیم علیہ رحمۃاللہ الرحیم سے مروی ہے کہ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب وسینہ، صاحب ِ معطر پسینہ، باعث ِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جبرائیلِ امین (علیہ السلام) جب بھی میرے پاس حاضر ہوتے تو وہ اللہ عزَّوَجَلَّ کے خوف سے کانپ رہے ہوتے۔ جب شیطان کی مخالفت ظاہر ہوئی اور قرب ، بلند مرتبہ اور عبادت کے بعد اسے دھتکارا گیا تو جبریل ومیکائیل (علیہما السلام) دونوں رونے لگے، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان سے استفسار فرمایا: ''تمہیں کیا ہوا؟ کیوں روتے ہو؟ حالانکہ میں کسی پر ظلم نہیں کرتا۔'' تو انہوں نے عرض کی: ''اے ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ! ہم تیری خفیہ تدبیریعنی تیری قضا، تیرے قرب کے بعد دوری اور سعادت مندی کے بعد شقاوت سے خوف زدہ ہیں۔'' تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان سے ارشاد فرمایا: ''اسی طرح میری خفیہ تدبیرسے ڈرتے رہو۔''
(العظمۃ لابی الشیخ الاصبھانی،ذکر میکائیل علیہ السلام،الحدیث۳۸۵،ص۱۳۶،مختصر)