وَضاحت کرتے ہوئے بولا، جب کسی پر ''بُخْل '' کا جال پھینکتا ہوں تووہ مال کے جال میں اُلجھ کر رَہ جاتاہے اُس کا یہ ذِہن بناتا رَہتا ہوں کہ تیرے پاس مال بَہُت قلیل ہے(اس طرح وہ بُخل میں مبتلا ہو کر)حُقُوقِ واجِبہ میں خرچ کرنے سے بھی باز رَہتا ہے اور دوسرے لوگوں کے مال کی طرف بھی مائل ہوجاتاہے ۔ (اور یوں مال کے جال میں پھنس کرنیکیوں سے دُور ہوکر گناہوں کے دلدل میں اترجاتا ہے) جب کسی پر غُصّہ کا جال ڈالنے میں کامیاب ہوجاتا ہوں تو جس طرح بچے گیند کو پھینکتے اور اُچھالتے ہیں، میں اس غُصیلے شخص کو شیاطین کی جماعت میں اسی طرح پھینکتا اور اُچھالتا ہوں ۔غُصیلا شخص علم وعمل کے کتنے ہی بڑے مرتبے پر فائز ہو،خواہ اپنی دعاؤں سے مُرد ے تک زندہ کرسکتا ہو ،میں اس سے مایوس نہیں ہوتا، مجھے اُمّید ہوتی ہے کہ کبھی نہ کبھی وہ غُصّہ میں بے قابو ہوکر کوئی ایساجُملہ بک دے گا جس سے اس کی آخِرت تبا ہ ہوجائے گی۔رہا ''نَشہ ''تو میرے اس جال کا شکاریعنی شرابی اس کو تومیں بکری کی طرح کان پکڑ کر جس