نوٹ: صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں کہ''عامل اگرچہ غنی ہو اپنے کام کی اجرت لے سکتا ہے اور ہاشمی ہوتو اس کو مال زکوٰۃ میں سے دینا بھی ناجائز اور اسے لینا بھی ناجائز ،ہاں اگر کسی اور مَد(یعنی ضمن) میں دیں تو لینے میں حرج نہیں ۔
(بہارِ شریعت، ج۱،مسئلہ نمبر۶،حصہ ۵،ص۹۲۵)
رِقاب: سے مراد مکاتب ہے ۔ مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس سے اس کے آقا نے اس کی آزادی کے لئے کچھ قیمت ادا کرنا طے کی ہو ،فی زمانہ رقاب موجود نہیں ہیں۔
غارِم : اس سے مراد مقروض ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ دینے کے بعد زکوٰۃ کا نصاب باقی نہ رہے اگرچہ اس کا بھی دوسروں پر قرض باقی ہو مگر لینے پر قدرت نہ رکھتا ہو ۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الزکوٰۃ ،باب المصرف ،ج۳،ص۳۳۹)
فِی سَبِیلِ اللہ: یعنی راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں خرچ کرنا ۔اس کی چند صورتیں ہیں :
(۱) کوئی شخص محتاج ہے اور جہاد میں جانا چاہتا ہے مگر اس کے پاس سواری اور زادِ راہ نہیں ہیں تو اسے مالِ زکوٰۃ دے سکتے ہیں کہ یہ راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں دینا ہے اگرچہ وہ کمانے پر قادر ہو ۔
(۲) کوئی حج کے لئے جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس زادِ راہ نہیں ہے تو اسے