شرعاً قیمت اس کو کہتے ہیں جو اس چیز کا بازار میں بھاؤہو ،اتفاقی طور پر یا بھاؤتاؤ کرنے کے بعد کمی یا زیادتی کے ساتھ کوئی چیز خرید لی جائے تو اس کو قیمت نہیں کہیں گے (بلکہ ثَمَن کہیں گے)۔(فتاویٰ امجدیہ ج ۱ص۳۸۲)
جس مقام پراشیاء واقعی حکومتی ریٹ کے مطابق فروخت ہوتی ہو ں وہاں اسی ریٹ کا اعتبار ہو گا اور اگر حکومتی ریٹ او ربازار کے بھاؤ میں فرق ہو تو بازار کے بھاؤ کا اعتبار ہوگا ۔( فتاویٰ امجدیہ ،ج ۱،ص۳۸۶،ملخصاً)
کس جگہ کی قیمت لی جائے گی ؟
قیمت اس جگہ کی ہونی چاہیے جہاں مال ہے۔ (بہارشریعت ،ج۱،حصّہ ۵،مسئلہ ۱۸،ص۹۰۸)
قیمت نہ توبنوانے کے وقت کی معتبر ہے نہ ادائیگی زکوٰۃ کے وقت کی بلکہ جب زکوٰۃ کا سال پورا ہوا اسی وقت کی قیمت کا حساب لگایا جائے گا ۔(ماخوذازفتاویٰ رضویہ مُخَرَّجَہ،ج۱۰،۱۳۳)