بدعت کی تعر یف میں '' زمانہ نبوی کی قید'' لگائی گئی ہے، چنانچہ خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاکیزہ دور میں ایجاد شدہ نئے کام کوبھی بدعت ہی کہا جائے گا۔ مگر درحقیقت یہ نئے کام بھی سنت میں داخل ہیں ۔
(ماخوذ از اشعۃ اللمعات ،ج۱،ص۱۳۵)
کیونکہ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:میری سنت اور میرے خلفاء کی سنّت کو مضبوطی سے پکڑے رہو ۔''
(سنن ابن ماجہ ،مقدمہ،الحدیث۴۲،ج۱،ص۳۱)
بدعت کی (اصولِ شرع کے اعتبار سے)دواقسام ہیں :
(۱) بدعتِ حسنہ: ہر وہ نیا کام جو اصول ِ شرع (یعنی قراٰن وحدیث اور اجماع) کے موافق ہو مخالف نہ ہو۔
(۲)بدعتِ ضلالۃ : جو نیا کام اصولِ شرع کے مخالف ہو ۔
اس حدیث میں
سے مراد دوسری قسم ہے یعنی ہر وہ نیا کام جو قرآن پاک،حدیث شریف،آثارِصحابہ یا اجماعِ امت کے خلاف ہو وہ بدعتِ سیئہ اور گمراہی ہے اور جو نیا اچھا کام ان میں سے کسی کے مخالف نہ ہوتو وہ کام مذموم نہیں ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تراویح کی جماعت کے متعلق فرمایا
نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ہٰذِہِ
یعنی یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے۔