أما بعد! چند سال ہوئے کہ روزِ عید الفطر، بعض تلامذہ مولوی گنگوہی (۱)نے بعض اہل سنت پر دربارہ معانقہ طعن وانکار کیا (۲) کہ:۔1
''شرع میں معانقہ صرف قادمِ سفر(۳)کے لیے وارد ہوا،بے سفربدعت و ناروا(4)۔ میں نے اپنے اساتذہ سے یوں ہی سنا''۔
ان سُنِّیوں نے اس باب میں فقیر ،حقیر، عبد المصطفیٰ احمد رضا محمدی، سُنّی، حنفی، قادری، برکاتی، بریلوی غفرلہ، وحَقّقَ اَمَلہ،(۵) سے سوال کیا، فقیرنے ایک مختصر فتوٰی لکھ دیاکہ احادیث میں معانقہ سفر وبے سفر دونوں کا اثبات اور تخصیصِ سفر تراشیدہ حضرات(۶)۔بحمداللہ اس تحریر کا یہ نفع ہوا کہ ان صاحب نے اپنے دعوٰی سے انکار کردیا کہ :''نہ میں اس تخصیص کا مدعی تھا ،نہ اپنے اساتذہ سے نقل کیا''۔
خیر ،یہ بھی ایک طریقہ توبہ ورجوع ہے اور الزامِ کذب بھی زائل ومدفوع ہے کہ جب اپنے معبود کا کذب ممکن جانیں ،کیا عجب کہ اپنے واسطے فرض و واجب مانیں(۷)۔