Brailvi Books

دِيوانِ حماسه
22 - 324
سوال:

     عنقاء کا کسی کو اڑاکر لے جانا امر مفروض الوقوع کس طرح ہے ؟ہوسکتاہے کبھی خارج میں ایسا ہوا بھی ہو ! 

جواب:

     عنقاء خود ایک فرضی پرندہ ہے ۔جیسے بعض حضرات فرماتے ہیں :
ھُوَ طَائِرٌ فَرْضِیٌّ لَاوُجُوْدَ لَہُ فِيْ الْخَارِجِ۔
نیزقافیہ بندی کرتے ہوئے کہاجاتاہے :
اَلْعَنْقَاءُ اِسْمٌ لَا جِسْمٌ:
یعنی عنقاء برائے نام اور کہنے کی شئ ہے خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں۔

تنبیہ:

    خیال رہے کہ جب کسی شئ کی تقسیم مختلف اعتبارات سے مختلف ہو تو تقسیمات مختلفہ کی اقسام ایک مادے میں مجتمع ہوسکتی ہیں ۔ جیسے اسم کی تقسیم تعریف و تنکیر ، تذکیر و تانیث ،اعراب و بناء، وحدت تثنیہ و جمع ،اور رفع ونصب وجر وغیرہا مختلف اعتبارات سے ہے ان مختلف تقسیمات کی اقسام ایک مادے میں متحقق ہو سکتی ہیں ۔مثلا ً: ''جَاءَ زَیْدٌ''اس میں لفظ ''زَیْدٌ''معرفہ بھی ہے مذکر بھی ہے،معرب بھی ہے واحد بھی ہے اورمرفوع بھی۔البتہ ایک تقسیم کی اقسام باہم اکٹھی نہیں ہوسکتیں۔

    بالکل اسی طرح استعار ے کی ان مختلف تقسیمات کا حال ہے کہ تقسیمات مختلفہ کی اقسام مختلفہ مادہ واحدہ میں جمع ہوسکتی ہیں ۔ جیسے :
 (فَأَخْرَجَ لَہُمْ عِجْلاً جَسَداً لَہ) (20/88)
کہ اس میں لفظ''عجلا''استعارہ عنادیہ بھی ہے ، استعارہ مصرحہ بھی ہے ، استعارہ عامیہ بھی ہے اور استعارہ اصلیہ بھی۔
وَعَلَیْکَ بِالْقِیَاسِ فِيْ کُلِّ مَقَامٍ۔

    ھَذَا مَا تَیَسَّرَ لِيْ وَالْعِلْمُ بِالْحَقِّ عِنْدَ رَبِّيْ وَھُوَ تَعَالٰی أَعْلَمُ وَعِلْمُہ، جَلَّ مَجْدُہٗ أَتَمُّ وَأَحْکَمُ۔وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّہِ َربِّ الْعَالَمِیْنَ وَصَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَی خَیْرِ خَلْقِہِ وَنُوْرِ عَرْشِہِ وَقَاسِمِ رِزْقِہِ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَصَحْبِہِ أَجْمَعِیْنَ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ وَعَلَیْنَا مَعَھُمْ بِھِمْ۔
Flag Counter