تھا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ایک ولئی کامِل کا عِمامہ شریف بارہا میرے ہاتھوں اور سر سے مَس ہوا ہے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ میرے ہاتھوں اور سر کو جہنَّم کی آگ نہیں چھوئے گی اور جب ہاتھوں اور سر کو نہ چھوئے گی تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سارا ہی بدن محفوظ ر ہے گا۔ دراصل بات یہ ہے کہ مُتَذَکَّرہ حیدَری مسجِد میں اعلیٰ حضرت، عظیم ُ البرکت، امامِ اہلسنّت ، مجدّدِدین و ملّت، عالمِ شریعت، واقِفِ اَسرارِ حقیقت، پیر طریقت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن کے خلیفۂ مجاز مَدّاحُ الحبیب،صاحِبِ قبا لۂ بخشش حضرتِ مولانا جمیلُ الرّحمن قادِری رضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ القَوِی کے فرزندِ اَرْجُمند حضرتِ علّامہ مولانا حمیدُ الرّحمن قادِری رضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ القَوِی امامت فرماتے تھے۔ چُونکہ مسجِد سے آپ کا دولت خانہ تقریباً چھ سات کلو میٹر دُور تھا لہٰذا فجر کی امامت کی مجھے سعادت ملتی تھی اور اُن کا حُضُور مفتی ٔ اعظم ہِند رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ والا عمامہ شریف مجھے نصیب ہوجاتا، جس سے میں بَرَکتیں حاصِل کیا کرتا۔ ایک بار حضرتِ مولانا حَمیدُ الرّحمن عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّان نے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے مجھ سے فرمایا : میں اُن دِنوں چھوٹا بچّہ تھا اور مجھے اچّھی طرح یاد ہے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ مجھ سے بھی اور ہر بچّے سے’’آپ‘‘ کہہ کر ہی گفتگو فرماتے تھے ، ڈانٹنا، جھاڑنا اور تُو تُکار آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے مزاجِ مُبارک میں نہ تھا، ایک جُمعرات کو میں بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے کاشانۂ رَحْمتـ پر حاضِر تھا کہ کوئی صاحِب ملنے آئے اور وہ وَقت عام مُلاقات کا نہیں تھا لیکن وہ ملنے پر مُصِر تھے۔ چُنانچِہ میں