ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
= وفي ''شرح المواقف''، المقصد الأول، ج۸، ص۲۲: (أنّہ تعالی لیس في جہۃ) من الجہات (ولا في مکان) من الأمکنۃ). وص ۳۱: ((أنّہ تعالی لیس في زمان) أي: لیس وجودہ وجوداً زمانیاً). ''شرح المقاصد''، ج۲، ص۲۷۰، : (طریقۃ أھل النسۃ أن العالم حادث والصانع قدیم متصف بصفات قدیمۃ لیست عینہ ولا غیرہ، وواحد لا شبۃ لہ ولا ضد ولا ند ولانہایۃ لہ ولا صورۃ ولا حد ولا یحل في شيء ولا یقوم بہ حادث ولا یصح علیہ الحرکۃ والانتقال ولا الجھل ولا الکذب ولا النقص وأنہ یری في الآخرۃ)۔
ترجمہ: اھل سنت وجماعت کا راستہ یہ ہے کہ بے شک عالم حادث ہے اور صانع عالم قدیم ایسی صفات قدیمہ سے متصف ہے جو نہ اس کا عین ہیں نہ غیر۔ وہ واحد ہے ، نہ اس کی کوئی مثل ہے نہ مقابل نہ شریک ، نہ انتہا ، نہ صورت ، نہ حد ، نہ وہ کسی میں حلول کرتا ہے ، نہ اس کے ساتھ کوئی حادث قائم ہوتا ہے، نہ اس پر حرکت صحیح ، نہ انتقال ، نہ جہالت ، نہ جھوٹ اور نہ نقص۔ اور بے شک آخرت میں اس کو دیکھا جائے گا ۔
''شرح المقاصد''، المبحث الثامن من حکم المؤمن۔۔۔ إلخ، ج۳، ص۴۶۴۔۴۶۵۔ و''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱۵، ۵۱۷۔
وفي ''المعتقد المنتقد''، ص ۶۴: (ولما ثبت انتفاء الجسمیۃ ثبت انتفاء لوازمہا، فلیس سبحانہ بذي لون، ولا رائحۃ، ولا صورۃ، ولا شکل۔۔۔ إلخ)، ملتقطاً۔
1۔۔۔۔۔۔ في ''الفتاوی الحدیثیۃ''، مطلب: في رؤیۃ اللہ تعالی في الدنیا، ص۲۰۰: (الرؤیۃ وإن کانت ممکنۃ عقلاً وشرعاً عند أھل السنۃ لکنّہا لم تقع في ہذہ الدار لغیر نبینا صلی اللہ علیہ وسلم، وکذا لہ علی قول علیہ بعض الصحابۃ رضي اللہ عنھم لکنّ جمہور أھل السنۃ علی وقوعہا لہ صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ المعراج بالعین).
وقال في مقام آخر، مطلب: علی أنّہ لا خلاف بین السلف و الخلف في...الخ،ص۲۰۲:(والإمام الرباني المترجم بشیخ الکل في الکل أبوالقاسم القشیري رحمہ اللہ تعالی یجزم بأنّہ لا یجوز وقوعہا في الدنیا لأحد غیر نبینا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ولا علی وجہ الکرامۃ، وادعی أنّ الأمۃ اجتمعت علی ذلک).
وقال في مقام آخر، ص۲۸۸:(وخص نبینا صلی اللہ علیہ وسلم بالرؤیۃ لیلۃ الإسراء بعین بصرہ علی الأصح کرامۃ لہ).
وفي ''المعتقد المنتقد''، ص۵۶: (أنّ رؤیتنا لہ سبحانہ جاءزۃ عقلا في الدنیا والآخرۃ. واتفقوا أھل السنۃ علی وقوعہا في الآخرۃ، واختلفوا في وقوعہا في الدنیا. قال صاحب الکنز: قد صح وقوعہا لہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم، وھذا قول جمہور أھل السنۃ وہو الصحیح، وہو مذہب ابن عباس، وأنس وأحد القولین لابن مسعود، وأبي ہریرۃ وأبي ذر، وعکرمۃ والحسن وأحمد بن حنبل وأبي الحسن الأشعري وغیرہم)، ملتقطاً.
وقال الإمام النووي في ''شرح مسلم''، کتاب الإیمان،باب معنی قول اللہ عزوجل (وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی... إلخ): (الراجح عن أکثر العلماء أنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رأی ربہ بعیني رأسہ لیلۃ الإسراء)، ج۱،ص۹۷.
انظر للتفصیل: ''شرح الإمام النووي''، ص۹۷، و''الشفاء'' للقاضي، ج۱، ص۱۹۵، و''الفتاوی الرضویۃ''، الرسالۃ: ''منبہ المنیۃ بوصول الحبیب إلی العرش والرؤیۃ''، ج۳۰، ص۶۳۷.