بھٹکتا پھر رہا تھا۔ فلمیں ڈرامے دیکھنا،گانے باجے سننا،نمازیں قضا کر دینا تو میرا روز کا معمول تھا۔ بدکاری کے اڈّوں پرجانا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ناجائز اسلحے کی خرید و فروخت، چرس، ہیروئن،شراب کا صرف دھندا ہی نہیں کرتا تھا بلکہ مختلف منشیات کا عادی بھی تھا۔ اب تو ان گناہوں کے تصوّر سے بھی جسم کانپ اٹھتا ہے۔ شاید میں انہی بے حیائیوں میں مبتلا ہو کر خوابِ غفلت میں سویا رہتا اور اسی حالت میں موت کے گھاٹ اُتر کر جہنم میں جا گرتا مگر میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے بچا لیا اور مجھے دعوتِ اسلامی کے پاکیزہ مُشکبار مَدَنی ماحول سے وابستہ ہونے کی سعادت مل گئی۔ہوا یوں کہ ایک روز میرے ضمیر نے مجھے ملامت کی کہ تُوکیوں اپنے ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانیوں میں اپنا وقت برباد کرتا رہتا ہے؟ اس بے نیاز کی بارگاہ میں بھی تو حاضری دینی ہے کچھ تو خیال کر!اس کے بعد میں نے درودِ پاک کا ورد کرنا شروع کر دیا۔اس بات کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ایک رات خواب میں ایک پُر کیف منظر دیکھا کہ ایک باغیچے میں ایک نورانی چہرے والے بزرگ جلوہ فرما ہیں جن کی مہندی لگی سرخ داڑھی تھی اور سر پر سبز عمامے کا تاج نور برسارہا تھا۔ ان کے سامنے تقریباً 150 اسلامی بھائی سبز عمامے سجائے حلقے کی صورت میں موجود تھے۔میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔یہ’’ نورانی چہرے والے بزرگ‘‘ سب سے باری باری سُورۃُ التَّکاثُر سن رہے تھے۔وہ میری طرف متوجِہ ہوئے اور