اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نَماز کے بعد دہلی (ھند) کی ایک مسجدمیں مشغولِ وظیفہ تھے ۔ ایک صاحب آئے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قریب ہی نماز پڑھنے لگے۔جب تک قیام میں رہے مسجد کی دیوار کو دیکھتے رہے ،رُکوع میں بھی سر اوپر اٹھاکر سامنے دیوار ہی کی طرف نظر رکھی ۔جب وہ نماز سے فارِغ ہوئے تواس وقت تک اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت بھی اپنا وظیفہ مکمل کر چکے تھے ۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے انہیں اپنے پاس بلاکر شرعی مسئلہ سمجھایا کہ ''نماز میں کس کس حالت میں کہاں کہاں نگاہ ہونی چاہے۔ ''پھر فرمایا:''بحالتِ رُکوع نگاہ پاؤں پرہونی چاہے ۔''یہ سنتے ہی وہ صاحب قابوسے باہر ہوگئے اورکہنے لگے:'' واہ صاحب! بڑے مولانا بنتے ہو، نماز میں قبلہ کی طرف منہ ہونا ضروری ہے اور تم میرا منہ قبلہ سے پھیرناچاہتے ہو!''یہ سن کراعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے ان کی سمجھ کے مطابق کلام کرتے ہوئے فرمایا:''پھر تو سجدہ میں بھی پیشانی کے بجائے ٹھوڑی زمین پر لگائيے!''یہ حکمت بھراجملہ سن کر وہ بالکل خاموش ہوگئے اوران کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ '' قبلہ رُو ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اوّل تا آخرقبلہ کی طرف منہ کرکے دیوار کو دیکھا جائے ،بلکہ صحیح مسئلہ وہی ہے جو اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے بیان فرمایا۔ (حیات اعلی حضرت ،ج۱،ص۳۰۳)