٭ اگر کوئی آپ کی خِدْمَت میں مالِ کثیر پیش کرتا تو آپ اسے قبول فرما کر وہ مال انہیں ہی عَطا فرما دیتے اور ساتھ یہ حُکْم اِرشَاد فرماتے کہ وہ وہاں مَسْجِد تعمیر کریں اور اس کام میں خود بھی ان کی مالی مَدَد فرماتے ۔
٭ جب مَسْجِد کی تعمیر مُکَمَّل ہو جاتی تو وہاں کسی مفتی (فقیہ ) کا تَقَرُّر فرما دیتے تا کہ اس کے ذَرِیعے لوگوں میں عِلْمِ دین کو عام کیا جائے ۔ یوں تقریباً 60 مقامات پر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی طرف سے ایک فقیہ مُقَرَّر تھے جو وہاں لوگوں کو نہ صرف باجَمَاعَت نَمازیں پڑھاتے بلکہ نَماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کے مُتَعَلِّق ضروری دینی مَسَائِل بھی سکھایا کرتے ۔
٭ ان مفتیانِ کرام کے اَخراجات کی بھی آپ اپنی جیب سے ترکیب بنایا کرتے ، یہاں تک کہ اس کے لئے آپ کو ایک بَہُت بڑی رَقَم اُدھار بھی لینا پڑی، مگر آپ نے اِشَاعتِ عِلْمِ دِین سے منہ نہ موڑا اور بِالْآخِر حُکُومَتِ وَقْت نے آپ کی ان خدمات کو سراہتے ہوئے ان تمام مفتیانِ کرام کے ماہانہ مُشاہرے کی مُناسِب ترکیب کی ضَمَانَت لے لی۔
٭ اَطراف و مضافات میں آپ نے جو بیج بویا تھا اس کے ثمرات جَلْد ہی نمودار ہونے لگے ، چُنَانْچِہ چند ہی سالوں کے بعد جب ان بچوں کی تعداد شُمار کی گئی جنہوں نے حِفْظ قرآنِ کریم کی سَعَادَت پائی تھی تو یہ تعداد 800 کو پہنچ گئی اور غیر حُفّاظ کی تعداد تو بے شُمار تھی۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
________________________________
1 - نفحة الرحمن فی مناقب مفتی مکة احمد زینی دحلان،ص۳۸تا۴۲ ملخصًا