کئی جَیَّد عُلَمائے کرام کے اَسَاتِذہ میں ہوتا ہے ۔ آپ نے مَکَّةُ المُکَرَّمَہ میں عِلْمِ دین کی ترویج و اِشَاعت میں جو کردار ادا کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ، آپ نے جس بُلَند ہمتی سے عِلْم کی دولت حاصِل کی اسے خَرْچ کرنے میں بھی بُخْل سے کام نہ لیا، بلکہ ہمیشہ فراخ دِلی کا مُظاہَرہ کیا اور ہر لمحہ شَریعَتِ مُطَھَّرَہ کی حِمَایَت و نُصْرَت اور اِشَاعت پر کمر بستہ رہے ، یہی نہیں بلکہ عِلْمِ دین سے غَفْلَت برتنے والوں کو دین و دنیا کی نَفْع مند باتیں سکھانے کو اپنا مَقْصَدِ حَیات بنا لیا۔ چُنَانْچِہ اس مَقْصَد کی تکمیل کے لئے آپ نے جو لائحہ عَمَل اِخْتِیار کیا، اس کی چند جھلکیاں مُلَاحَظہ ہوں:
٭ آپ نے اپنے اِرادت مندوں اور طالب علموں کی تَربِیَت کا ایک ایسا اعلیٰ نظام قائم کیا کہ جہاں آپ انہیں زیورِ عِلْم سے آراستہ کرتے ، وہیں انہیں ہر طرح کی دُنْیَاوِی آلائشوں (یعنی میل کچیل، گندگی) اور بُرائیوں سے بھی دُور رہنے کی تَربِیَت دیتے ۔
٭ اگر ان میں سے کسی کو کسی خاص صَلَاحِیَّت کا حامِل پاتے تو اسے دوسروں کو سکھانے اور ان کی تَربِیَت کرنے کی ذِمَّہ داری عَطا فرماتے ۔ یوں چراغ سے چراغ جلتا گیا اور بَہُت کم عرصے میں مَسْجِدِ حَرام آپ کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں سے بھر گئی گویا ہر طرف عِلْم کی روشنی پھیل گئی۔
٭ جب آپ نے مَکَّةُ المُکَرَّمَہ میں ہر طرف عِلْم کے سمندر کو موجزن مُلَاحَظہ فرمایا تو اَطراف و مُضافات کو بھی اس سَعَادَت کا حق دار بنانے کے لئے خاص تَوَجُّہ دی۔
٭ تَبْلِیغِ قرآن و سنّت کے لئے مَکَّةُ المُکَرَّمَہ کے اَطراف میں نہ صِرف خود تشریف