ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری رَضَوی دَامَت بَرَکَاتُہُمُ العَالِیَہ اپنی مایہ ناز تالیف فیضانِ سُنّت جلد اوّل میں فرماتے ہیں: ’’کیمیائے سعادت‘‘ میں ہے، ایک بزرگ نے ایک بار سنّت کے مطابق سیدھی جوتی سے پہننے کا آغاز کرنے کے بجائے بے خیالی میں الٹی جوتی پہلے پہن لی اس سنت کے رہ جانے پر انہیں سخت صدمہ ہوا اور اس کے عوض انہوں نے گیہوں کی دو بوریاں خیرات کیں۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ انہیں حضرات کا حصہ تھا۔ کاش! ہمیں بھی اپنے بزرگوں کے طریقوں پر چلنا نصیب ہوجائے۔ (فیضانِ سنّت ، ص ۴۶۲)
سنت کی محبت(حکایت )
حافظِ ملّت حضرت علامہ مولاناعبدالعزیزمبارک پوری علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی اپنے ہر عمل میں سنّت کابَہُت زیادہ خیال رکھتے تھے۔ایک بار حضرت رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کے دائیں پاؤں میں زَخم ہوگیا،ایک صاحِب دوا لے کر پہنچے اورکہا:حضرت !دوا حاضِر ہے۔جاڑے(یعنی سردیوں)کا زمانہ تھا حضرت رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ مَوزہ پہنے ہوئے تھے،آپ رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے پہلے بائیں(یعنی اُلٹے)پاؤں کا مَوزہ اُتارا، وہ صاحِب بول پڑے:حضرت!زَخم تو داہنے(یعنی سیدھے)پاؤں میں ہے!آپ رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہنے فرمایا:بائیں(یعنی اُلٹے)پاؤں کاپہلے اُتارنا سنّت ہے۔
(نیکی کی دعوت،ص ۲۱۳)