اور متاثر نہ ہونے کا درس بھی دیتا ہے، اس لئے مذہبی پابندیوں کے ساتھ اس کا زندگی گزارنا ضروری ہے۔
ضروری حد تک قدامت پسند اس طور پر ہوتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گااور ہمارے نبی ٔمکرم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دنیا سے ظاہری پردہ فرمائے ہوئے بھی چودہ سو سال سے زیادہ ہوچکے ان پر رب کا کلام بھی اسی محبوب زمانے میں نازل ہوا تھا اور آپ نے اپنی اسی ظاہری حیاتِ طیبہ میں اس کی تفہیم و تشریح اپنی احادیث کی صورت میں امت کو عطا فرمائی تھی تو جب یہ سب کچھ بھی پراناہے تو مسلمان کا اس معنی میں قدامت پسند ہونا ضروری ہوا، ورنہ وہ مسلمان کب رہے گا پھر قرآن و حدیث کی واضح نصوص اور ائمۂ مجتہدین کے اِجماع سے ثابت شدہ ضروری احکامات بغیر کسی حیل و حجت کے ماننا اور اس پر عمل پیرا رہنا یونہی ائمۂ اربعہ میں سے جو کسی امام کا مُقَلِّد ہے اس کا اپنے امام کے قول کو حق تسلیم کرتے ہوئے اس کے مطابق عمل کرنا سچا مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے اور یہ سب باتیں آج کی نہیں صدیوں پہلے ثابت و مقرر ہوچکی ان میں سے کسی بات پر عمل میں کوتاہی اور رَد و انکار کرنے سے نوبت فسق و فجور سے لیکر کفر و گمراہی تک پہنچتی ہے اسلئے جدید دنیا میں رہنے والا مسلمان بھی اپنے ایمان اور دینی ضروری احکام کے لحاظ سے قدامت پسند ہوتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے یہ اس کی مذہبی زندگی کیلئے روح کی حیثیت رکھتا ہے۔
الغرض خدائے ذو الجلال اور اس کے بھیجے ہوئے نبی ٔبے مثال صَلَّی اللّٰہُ