رَسُوۡلًا ﴿۱۵﴾وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنۡ نُّہۡلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیۡہَا فَفَسَقُوۡا فِیۡہَا فَحَقَّ عَلَیۡہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِیۡرًا ﴿۱۶﴾
والے نہیں جب تک رسول نہ بھیج لیں اورجب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں اسکے خوشحالوں(امیروں) پر احکام بھیجتے ہیں پھر وہ اس میں بے حکمی کرتے ہیں تو اس پر بات پوری ہوجاتی ہے تو ہم اسے تباہ کرکے بربادکردیتے ہیں ۔
اس آیت ِمبارَکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بگاڑ و فساد اور نافرمانیوں میں مبتلا ہونے کی ایک وجہ بے حد خوشحالی اور جاہ و حشمت کیساتھ حکمرانی بھی ہوتی ہے ایسے لوگوں کے نافرمانیوں میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے اور عام مشاہدہ سے بھی اس کا بخوبی پتا چلتا ہے۔
اب ایک طرف تو فطری عادتوں کی یہ صورتِ حال ہے دوسری طرف مسلمان چونکہ عام انسان نہیں ہوتا بلکہ بنسبت کافروں کے حقیقی سچی انسانیت کا تاج اس کے سر پر ہوتا ہے اس لئے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دولت ِایمان اسے نصیب ہوتی ہے اور مسلمان ہونے کے ناطے اس کا دین و ایمان اسے جدت پسندی کے ساتھ ضروری حد تک قدامت پسند، جلد بازی کی فطری عادت کے باوجود تحمل پسند اور عقل سے کام لیتے ہوئے حدودِ شریعت میں رہتے ہوئے زندگی گزارنے والا اور لوگوں سے مل جل کر رہنے کی ناگزیریت کے ساتھ برائیوں سے مُجتنب رہنے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
2…پ۱۵،بنی اسرائیل:۱۵،۱۶۔