رہے اور بہت سے اصحابِ معرفت سے ملاقاتیں کیں ، بالآخر سر ہند تشریف لے آئے اور آخر عمر تک یہیں تشریف فرما ہو کر اسلامی کتب کا درس دیتے رہے۔ فقہ واُصول میں بے نظیر تھے، کتب ِصوفیائے کرام: تَعَرُّف، عَوارِفُ المَعارِف اور فُصُوصُ الحِکَم کا درس بھی دیتے تھے، بہت سے مشائخ نے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے اِستفادہ (یعنی فائدہ حاصل) کیا۔ ’’سکندرے‘‘ کے قریب ’’اٹاوے‘‘ کے ایک نیک گھرانے میں آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا نکاح ہوا تھا۔ امام ربانی کے والد محترم شیخ عبد الاحد فاروقی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے 80 سال کی عمر میں 1007ھ / 1598ء میں وصال فرمایا۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا مزار مبارک سر ہند شریف میں شہر کے مغربی جانب واقع ہے۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں کُنوزُ الحَقائِقاوراَسرارُ التَّشَہُّدبھی شامل ہیں ۔ (سیرتِ مجدِّد الفِ ثانی ص ۷۷ تا ۷۹ مُلخّصاً ) اللہُ ربُّ العِزّت عَزَّوَجَلَّکی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
تعلیم و تربیت
حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے اپنے والد ماجد شیخ عبدالاحد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الصَّمد سے کئی علوم حاصل کیے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی محبت بھی اپنے والد ماجد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے ملی تھی، چنانچہ فرماتے ہیں : ’’اس فقیر کو عبادتِ نافلہ خصوصاً نفل نمازوں کی توفیق اپنے والد بزرگوار سے ملی ہے۔ ‘‘ (مَبْدا ومَعاد ص۶)