مخالفت کی بھی کوئی پروانہ کی، آخرِ کار ایک دن گھر والوں نے بیرون ملک (ملائیشیا) میں مقیم والد صاحب کو بھی میرے متعلق بتادیاکہ یہ مولوی بن رہا ہے، والد صاحب نے بھی مجھے بہت کہا بیٹا! داڑھی منڈوادو ‘‘مگر میں داڑھی شریف کیسے منڈوا سکتا تھا میرا دل سنّتِ رسول کی محبت سے سرشار ہوچکا تھا ۔ لاکھ مخالفت کے باوجود ، گھروالوں کی ناراضی کی پروا کیے بغیر راہِ سنّت پر گامزن رہا ، داڑھی شریف نہ منڈوائی۔
میرے سب عزیز چھوٹے، سبھی یار بھی تو روٹھے
کہیں تم نہ روٹھ جانا مدنی مدینے والے
میری والدہ نے کھانا چھوڑدیا مجھ سے بات کرنا ترک کردی، بس ان کی خواہش تھی کہ میں کسی طرح داڑھی شریف منڈوا دوں ۔ ان حالات کی وجہ سے میں بہت پریشان رہتا، کسی کو اپنا درد نہ بتاتا، مسجد میں جب نماز ادا کرنے جاتا تو حالت نماز میں خوب اشک بہاتا ، اپنے پاک پرورد گار کی بارگاہ میں فریاد کرتا۔ والدہ کے قدم پکڑ کر ان سے معافی کی بھیک مانگتا اور ان سے عرض کرتا کہ یہ سب میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا کے لیے کررہا ہوں ، آخر کا ر میری والدہ رضامند ہوگئیں ، یوں گھر میں مجھ پر تنقید کے تیر برسنا موقوف ہوگئے، میں خوب ذوق وشوق کے ساتھ عبادت اور دین کے