Brailvi Books

سِنگر کی توبہ
3 - 32
کہ ربیع الاول شریف کا مہینا تشریف لے آیا، چار سومرحبا یامصطفی مرحبا یامصطفی کے دلکش ترانے کانوں میں رس گھولنے لگے۔ اسی دوران ہمارے محلے کی مسجد کے امام صاحب جو کہ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ تھے۔ انہوں نے ایک روز ملاقات کے دوران انفرادی کوشش کرتے ہوئے مجھے عید میلاد النبی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سلسلے میں دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے اجتماعِ میلاد کی دعوت پیش کی، میں امام صاحب کو انکار نہ کر سکا اور ہامی بھرلی۔ مقررہ دن امام صاحب مجھے اپنے ساتھ ہی اجتماع میں لے گئے، جب اجتماع گاہ پہنچے تو یہاں ہر طرف ایک نورانی حِصار ، چار سو سبزسبز عماموں کی بہار، جھنڈے اور برقی قمقموں کی جگمگاتی قطار، دُرُودو سلام کی پکار نے میرا دل و دماغ نکھار دیا۔ نعت خوانی کے بعد مبلغِ دعوتِ اسلامی نے سنّتوں بھرا بیان فرمایا، بیان کے الفاظ تاثیر کا تیر بن کر میرے دل میں پیوست ہو گئے جس کے باعث دل میں ہلچل سی مچ گئی اور پہلی بار مجھے زندگی کا مقصد نظر آیا۔ رقت انگیز دعا نے سونے پر سُہاگے کا کام کیا، خوفِ خُدا اور شرم و حیا کے مارے آنکھوں کے راستے آنسوؤں کاسیلاب امنڈ آیا۔ دل پر لگا گناہوں کا میل دُھلتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور رو رو کر گناہوں سے معافی مانگی۔ اگلی صبح فجر کی نماز باجماعت ادا کی اور دن میں امام صاحب اور اپنے ایک دوست کے ساتھ