آخرت کو سنوارنے کی بالکل فکر نہ کی۔ یہ سوچ کر دل کانپ اٹھتا ہے کہ اگر اسی حالت میں مر جاتا تو آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی بارگا ہ میں کس منہ سے حاضر ہوتا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے دعوتِ اسلامی والوں کا کہ اس پر فتن دور میں عاشقانِ رسول کی صحبت میسر آگئی ورنہ پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا۔ خوش قسمتی سے مجھے دعوتِ اسلامی کے تحت 2009ء کے شبِ برا ء ت کے روح پرور سنّتوں بھرے اجتماعِ ذکر و نعت میں شرکت کی سعادت مل گئی۔ یہاں ہونے والی پر سوز نعت خوانی نے مجھے بہت متأثر کیا۔ موت اور قبر کے ہولناک مناظر پر مبنی سنّتوں بھرے بیان نے دل کی دنیا میں شرم و ندامت کا احساس پیدا کر دیا۔ میں نے اسی وقت اپنے گناہوں سے توبہ کی اور بقیہ زندگی اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت اور اس کے پیارے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیاری پیاری سنّتوں پر عمل کرتے ہوئے بسر کرنے کا ارادہ کر لیا اور نیکیوں پر استقامت پانے کے لیے دعوتِ اسلامی کا دامن تھام لیا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ تادم تحریر دعوتِ اسلامی کے مدنی کاموں کی ترقی وعروج کے لیے اپنی خدمات سرانجام دینے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو
صلُّوْاعَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی علٰی محمَّد