کے بیان کا خلاصہ ہے کہ میں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی بدقسمتی سے وہاں بد مذہبیت کا دور دورہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں اور میرے دو کزن اکثر بدمذہبوں کے ساتھ میل جول رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ دعوتِ اسلامی کے تحت مدینۃ الاولیاء ملتان میں ہونے والے بین الاقوامی سنّتوں بھرے اجتماع میں ہمارے علاقے سے کثیر اسلامی بھائی شرکت کی سعادت پانے جا رہے تھے اور اس سلسلے میں پوری ٹرین بُک کرائی گئی تھی جس دن یہ سب روانہ ہوئے تومیں یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاتھا ہرطرف سبز سبز عماموں کی بہاریں خوشبوؤں سے معطر فضائیں تھیں یہ منظر میری آنکھوں کوبہت بھایا اور میرے دل ودماغ میں نقش ہو گیا۔ وقت گزرتا رہا اور شعبان المعظم کامہینا تشریف لے آیا اسی دوران ہم تینوں نے شبِ براء ت میں شب بیداری کا پروگرام بنایا اس سلسلے میں میرے ایک کزن نے جہاں ہم نماز پڑھنے جاتے تھے اس مسجد کے امام سے شب بیداری کے بارے میں پوچھا تو اس نے بات آئی گئی کردی۔ اس پر میرے کزن کو بہت غصہ آیا اور وہ مسجد سے باہر آگئے، انہیں دعوتِ اسلامی کے شبِ براء ت کے اجتماعِ ذکرونعت کے متعلق کچھ معلومات تھی، وہ کہنے لگے : اس بار ہم شب بیداری کے لئے دعوتِ اسلامی کے اجتماع ذکر ونعت میں چلیں گے ۔ چونکہ میرے دل و دماغ میں تو پہلے ہی وہ عاشقانِ رسول کی اجتماع میں روانگی کا منظرنقش تھا اب مزید ان