کیسٹ لے نہ لیتا گھر نہ آتا۔ میری گناہوں بھری زندگی میں مدنی انقلاب کچھ اس طرح برپا ہوا کہ ایک سبز عمامے والے اسلامی بھائی نے مجھے شبِ معراج کے سلسلے میں دعوتِ اسلامی کے اجتماعِ ذکر و نعت میں شرکت کی دعوت دی۔ میں نے یہ سوچ کر ہاں کر دی کہ چلو وہاں شرارتوں اور ٹھٹھہ مسخری میں وقت پاس ہو جائے گا۔ چنانچہ یہی غرضِ فاسد لئے میں اپنے چند دوستوں کوساتھ لے کر کینٹ کی حنفیہ غوثیہ مسجد میں جا پہنچا۔ اسی مسجد میں دعوتِ اسلامی کے تحت شبِ معراج کے اجتماعِ ذکر و نعت کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اجتماع میں نعت خوانی کا سلسلہ جاری تھا۔ ایسی مقدس رات کہ جس میں ہمارے پیارے آقا و مولیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ملاقات و دیدارِ الٰہی کا شرف ملا کے تقدس کا خیال کیے بغیر ہم سب دوست شیطان کے ہاتھوں کھلونا بنے اونچی اونچی آوازیں نکال کر نعت خوانی میں خلل کا باعث بنتے رہے۔ ہماری مختلف آوازیں نکالنے کا یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ پھر سنتوں بھرا بیان ہوا مگر ہم اپنی شرارتوں اور حرکتوں میں مشغول رہے۔ اس کے بعد تقریباً رات کے آخری پہروں میں جب نعت خوانوں نے مل کریہ کلام مبارک پڑھا ’’شاہ دولہا بنا آج کی رات ہے‘‘ تو اس دوران محفل پر عجب سماں طاری ہو گیا مجھ پر بھی اس کااثر ہونے لگا اچانک اسی کلام کے دوران ایک اسلامی بھائی پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی اور وہ بے ہوش ہو گئے یہ منظر دیکھ کر میری تمام شرارتوں کا