Brailvi Books

صراط الجنان جلد پنجم
9 - 601
نیک اعمال پر نازاں نہیں ہونا چاہئے:
	اس سے معلوم ہوا کہ کوئی بندہ اپنے نیک اعمال پر نازاں نہ ہو بلکہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر اداکرے کہ اس نے اسے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا کی ہے اور اس کی بارگاہ میں اپنی عاجزی اور بے بسی کااظہار کرے اور گناہوں سے بچنے کو اپنا ہنر و کمال سمجھنے کی بجائے یہ سمجھے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت سے اسے گناہ سے بچا لیا ہے۔ یاد رہے کہ اپنے اعمال پر ناز کرنا اور خود پسندی میں مبتلا ہونا بہت ساری آفات کا مجموعہ ہے ،ان آفات کو بیان کرتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’خود پسندی گناہوں کو بھول جانے اور نظر انداز کرنے کی دعوت دیتی ہے، چنانچہ وہ بعض گناہوں کو بالکل ہی بھول جاتا ہے کیوںکہ وہ ان کی تلاش سے بے نیاز ہوجاتا ہے لہٰذا وہ بھلا دیئے جاتے ہیں اور جن گناہوں کو یاد رکھتا ہے ان کو بھی معمولی جانتا ہے اور انہیں کوئی اہمیت نہ دینے کی وجہ سے ان کے تَدارُک کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اسے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ بخش دیئے جائیں گے جبکہ اس کے برعکس عبادات اور اعمالِ صالحہ کو بہت بڑا سمجھتا، ان پر خوش ہوتا اور ان کی بجا آوری کو اللّٰہ تعالیٰ پرایک قسم کا احسان جانتا ہے اور توفیقِ عمل کی صورت میں ملنے والی نعمت ِخداوندی کو بھول جاتا ہے، پھر جب خود پسندی کا شکار ہوتا ہے تو اس کی آفات سے اندھا ہوجاتا ہے اور جو آدمی اعمال کی آفات سے غافل ہوتا ہے اس کی زیادہ محنت ضائع ہوجاتی ہے کیوںکہ ظاہری اعمال جب تک خالص اور آمیزش سے پاک نہ ہوں، نفع بخش نہیں ہوتے اور آفات کی جستجو وہ آدمی کرتا ہے جس پر خود پسندی کی بجائے خوف غالب ہوتا ہے اور خود پسند آدمی اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر مغرور ہوتا ہے، وہ اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر اور اس کے عذاب سے بے خوف ہوتا ہے اور اس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں ایک مقام حاصل ہے ، نیز وہ اپنے اعمال کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ پر احسان جتاتا ہے حالانکہ یہ اعمال کی توفیق ملنا اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت اور اس کے عطیات میں سے ایک عطیہ ہے لیکن خود پسندی کی وجہ سے وہ اپنی ذات کی تعریف کرتا اور اس کی پاکیزگی ظاہر کرتا ہے اور جب وہ اپنی رائے ،عمل اور عقل پر اتراتا ہے تو فائدہ حاصل کرنے، مشورہ لینے اور پوچھنے سے باز رہتا ہے اور یوں اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر بھروسہ کرتا ہے، وہ کسی بڑے عالم سے پوچھنا اچھا نہیں سمجھتا اور بعض اوقات اپنی غلط رائے پر اتراتا ہے جو اس کے دل میں گزرتی ہے اور اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ اس کے دل میں یہ خیال آیا اور دوسرے کی آراء کو پسند نہیں کرتا اسی لیے اپنی رائے پر اِصرار