وَلَمَّا جَہَّزَہُمۡ بِجَہَازِہِمْ قَالَ ائْتُوۡنِیۡ بِاَخٍ لَّکُمۡ مِّنْ اَبِیۡکُمْ ۚ اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیۡۤ اُوۡفِی الْکَیۡلَ وَ اَنَا خَیۡرُ الْمُنۡزِلِیۡنَ ﴿۵۹﴾ فَاِنۡ لَّمْ تَاۡتُوۡنِیۡ بِہٖ فَلَاکَیۡلَ لَکُمْ عِنۡدِیۡ وَلَاتَقْرَبُوۡنِ ﴿۶۰﴾ قَالُوۡا سَنُرَاوِدُ عَنْہُ اَبَاہُ وَ اِنَّا لَفٰعِلُوۡنَ ﴿۶۱﴾
ترجمۂکنزالایمان: اور جب ان کا سامان مہیا کردیا کہا اپنا سوتیلا بھائی میرے پاس لے آؤ کیا نہیں دیکھتے کہ میں پورا ماپتا ہوں اور میں سب سے بہتر مہمان نواز ہوں۔ پھر اگر اسے لے کر میرے پاس نہ آؤ تو تمہارے لیے میرے یہاں ماپ نہیں اور میرے پاس نہ پھٹکنا۔ بولے ہم اس کی خواہش کریں گے اس کے باپ سے اور ہمیں یہ ضرور کرنا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب یوسف نے ان کا سامان انہیں مہیا کردیا تو فرمایا کہ اپنا سوتیلا بھائی میرے پاس لے آؤ، کیا تم یہ بات نہیں دیکھتے کہ میں ناپ مکمل کرتا ہوں اور میں سب سے بہتر مہمان نواز ہوں۔ تواگر تم اس بھائی کو میرے پاس نہیں لاؤ گے تو تمہارے لیے میرے پاس کوئی ماپ نہیں اور نہ تم میرے قریب پھٹکنا۔ انہوں نے کہا: ہم اس کے باپ سے اس کے متعلق ضرور مطالبہ کریں گے اور بیشک ہم ضرور یہ کریں گے۔
{وَلَمَّا جَہَّزَہُمۡ بِجَہَازِہِمْ:اور جب ان کا سامان انہیں مہیا کردیا۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن بھائیوں کی بہت عزت کی اور بڑی خاطر و مُدارات سے اُن کی میزبانی فرمائی، ان میں سے ہر ایک کا اونٹ غلے سے بھر دیا اور سفر کے دوران جس چیز کی ضرورت درپیش ہو سکتی تھی وہ بھی عطا کر دی۔ ‘‘ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کا سامان انہیں مہیا کر دیا تو ان سے فرمایا ’’تم اپنے جس بھائی کو والد محترم کے پاس چھوڑ آئے ہو اسے میرے پاس لے آؤ ،کیا تم یہ بات نہیں دیکھتے کہ میں ناپ مکمل کرتا ہوں اور اس میں کوئی کمی نہیں کرتا ،اگرتم اس کو لے آئو گے تو ایک اونٹ غلہ اس کے حصہ کا اور زیادہ دوں گا اور کیا تم دیکھتے نہیں کہ میں سب سے بہتر مہمان نواز ہوں، اور اگر تم اس بھائی کو میرے پاس نہیں لاؤ گے جو تمہارے والد کے پاس موجود ہے تو