پریشانی کا باعث بن رہی تھیں مگر نہ مجھے ان کے ادب واحترام کا کچھ پاس تھا نہ ہی اسلامی احکام سے روگردانی کا کچھ احساس۔
بس زندگی گناہوں کی نذر ہورہی تھی۔ میں اس سے غافل تھا کہ ہرآنے والالمحہ مجھے موت کے قریب کررہا ہے ، عنقریب مجھے موت کا جام پینا ہوگا اور اندھیری قبر میں اتر کر اپنی کارستانیوں کی سزاکا سامنا کرنا ہوگا ۔ فکرآخرت سے غفلت ہی کی وجہ سے د ل ودماغ پر ہروقت برے افکار چھائے رہتے ، میں دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھا تھا اسی کی آسائشیں اور راحتیں مطلوب ومحبوب تھیں ۔ میری اس گناہوں سے تاریک زندگی میں نیکیوں کا اجالا کچھ اس طرح ہوا کہ خوش قسمتی سے دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ایک اسلامی بھائی سے میری ملاقات ہوگئی، وہ نہایت ہی محبت اور خلوص سے پیش آئے، دورانِ گفتگو انہوں نے سنّتیں اپنانے اور احکامِ خُدا بجالا نے کا ذہن دیا، مزید انفرادی کوشش کرتے ہوئے مجھے دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی دعوت دی۔ ان کا کردار و گفتار اور محبت بھرا انداز میرے دِل کو اس قدر بھایا کہ میں نے ان کی دعوت کو قبول کرلیا اور یوں میری دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع تک رسائی ہوگئی۔ اجتماع میں کثیر اسلامی بھائی سبز رنگ کے عمامے سجائے، سفید لباس کی سنّت اپنائے اجتماع میں شریک تھے اور محرابِ مسجد